کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 293
چند تضادات، مغالطات اور بلا دلیل دعوؤں کی وضاحت کریں گے، تاکہ اﷲ تعالیٰ اگر ان کو سوچنے سمجھنے کی توفیق دے تو وہ ان صاحب کی اصل شخصیت اور روپ بہروپ کو اصل شکل میں دیکھ سکیں۔ إن شاء اﷲ اس میں ان کے لیے: ﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَعِبْرَۃً لِّاُولِی الْاَبْصَارِ﴾ (آل عمران: 13) ’’بلاشبہ اس میں آنکھوں والوں کے لیے یقیناً بڑی عبرت ہے۔ ‘‘ کا سامان ہو گا۔ مغالطہ انگیزی: موصوف کی ایک صفت یا مجبوری، دیگر اہلِ باطل کی طرح، مغالطہ انگیزی ہے جس کے نمونے پچھلے صفحات میں گزرے ہیں۔ اس لیے کہ ان کا سارا موقف یا نظریہ ہی مغالطات پر مبنی ہے، مثلاً: دیکھیے! 1۔ ان کا یہ دعویٰ کتنا بڑا مغالطہ ہے کہ میرے موقف اور ائمہ سلف کے موقف میں سرمو (بال برابر) فرق نہیں ہے۔ کیا یہ حقیقت ہے یا جھوٹ؟ یقیناً جھوٹ، بلکہ اس صدی کا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ پھر یہ مغالطہ انگیزی، فریب کاری اور دجل و تلبیس کے سوا کیا ہے؟ 2۔ موصوف لکھتے ہیں: ’’تنقید سے بالا تر اگر کوئی چیز ہے تو وہ صرف کتاب و سنت ہیں اور ان کی تعبیر و تشریح کا حق ہر اس شخص کو حاصل ہے جو اپنے اندر اس کی اہلیت پیدا کر لے۔ ‘‘[1] یہاں ’’کتاب و سنت ‘‘ کے الفاظ کا استعمال بھی سراسر فریب کاری اور یہ تاثر دینا ہے کہ وہ بھی اہلِ اسلام کی طرح کتاب و سنت کو تنقید سے بالاتر سمجھتے اور اُن کی حقانیت کے قائل ہیں، لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟ ہرگز نہیں۔ ان کے نزدیک تو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتیں محفوظ ہی نہیں ہیں۔ احادیث کے مجموعوں میں سنتیں ہی درج ہیں، اس لیے محدثین نے اپنے مجموعۂ احادیث کے ناموں ہی میں ’’سنن ‘‘ کا لفظ ساتھ رکھا ہے۔ سنن ابی داود، سنن ابن ماجہ، سنن نسائی، سنن ترمذی وغیرہ اور ان سب میں احادیثِ رسول فقہی ابواب کے مطابق جمع ہیں۔ موصوف نے پہلے تو حدیث اور سنت دونوں کو الگ الگ کر دیا۔ احادیث کو ویسے ہی مشکوک یا غیر محفوظ یا (نعوذ باﷲ) قرآن کے خلاف اور قرآن میں تغیر و تبدل قرار دے دیا اور جس کو وہ سنت کہتے ہیں، اس کا کہیں کسی کتابی شکل میں وجود یا ریکارڈ ہی نہیں ہے۔
[1] برہان، ص: ۳۷