کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 292
ہے۔ دلوں کے بھید تو یقیناً اﷲ ہی جانتا ہے، لیکن لفظوں کا ہیر پھیر بھی بسا اوقات باطن کی غمازی کر دیتا اور دلوں کے راز اُگل دیتا ہے۔ لیکن ہم غامدی صاحب اور ان کے ہم نواؤں سے عرض کریں گے کہ امت کے اس دورِ ظلمت کو تیرہ صدیوں تک ہی نہ رکھیں، بلکہ اس کو از عہدِ رسالت تا ایں دم، ہی رہنے دیں۔ اُمتِ مسلمہ کو اپنی اسی تاریکی میں رہنا پسند ہے، جس میں اس کے رسول، اس کے خلفائے راشدین اور اُمت کے تمام ائمہ و فقہا اور محدثین رہے ہیں۔ ان کو اپنی اس تاریکی پر فخر ہے، کیوں کہ اس کے پسِ منظر، پیشِ منظر اور تہ منظر میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی اور خلفائے راشدین سمیت تمام صحابہ ہیں اور پوری اُمت کے ائمۂ حدیث و فقہ اور اساطینِ علم بھی ہیں اور ہمارے فخر کے لیے یہی کافی اور بس ہے۔ ہمیں ایسی ’’روشنی ‘‘ نہیں چاہیے، جس سے ہمارا سر رشتہ احادیثِ رسول سے کٹ جائے، سنتِ خلفائے راشدین سے کٹ جائے اور ہماری راہ اُمتِ مسلمہ کے جادۂ مستقیم سے ہٹ جائے۔ مغالطات، تضادات اور بلا دلیل دعوے: الحمد ﷲ گذشتہ مباحث سے واضح ہوگیا کہ حدیث و سنت کے معاملے میں مفہوم و مطلب سے لے کر اس کی حجیت تک فراہی نظریہ ائمۂ سلف سے یکسر مختلف ہے۔ اہلِ اسلام کے نزدیک حدیث و سنت ہم معنی الفاظ ہیں۔ حدیث کہو یا سنت، دونوں سے مراد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، اعمال اور تقریرات ہیں۔ یہ دین میں حجت ہیں، ان سے قرآن کے عموم کی تخصیص جائز ہے، یہ قرآن کی وہ تبیین ہے، جس کا حکم اﷲ نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو آیت: ﴿وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ﴾ (النحل: 44) ‘‘اور ہم نے تیری طرف یہ نصیحت اُتاری، تاکہ تو لوگوں کے لیے کھول کر بیان کر دے، جو کچھ ان کی طرف اُتارا گیا ہے۔ ‘‘ میں دیا اور اس کے مطابق آپ نے ایسے کئی احکام بیان فرمائے جو قرآن میں نہیں ہیں۔ صحابۂ کرام نے ان کو تسلیم کیا اور آج تک وہ مسلّم چلے آرہے ہیں۔ یہ مباحث علمی دلائل کے ساتھ پچھلے صفحات میں گزر چکے ہیں۔ ان میں بعض جگہ قارئین تکرار بھی محسوس کریں گے، لیکن تشریح و توضیح اور غامدی صاحب کی رنگ بدل بدل کر یا پینترا بدل بدل کر سخن سازی کی نوعیت و حقیقت واضح کرنے کے لیے ناگزیر تھی۔ اب ہم اگلے صفحات میں، ان کے دامِ ہم رنگ زمین کا شکار ہونے والے خام ذہن لوگوں کے لیے، ان کے