کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 291
غامدی صاحب کی ایک اور زیر کی و فن کاری:
ایک اور نہایت دلچسپ لطیفہ یا غامدی صاحب کی زیرکی یا ہاتھ کی صفائی ملاحظہ ہو کہ یہ پندرھویں صدی ہجری ہے، لیکن غامدی صاحب حوالہ دے رہے ہیں ’’پچھلی تیرہ صدیوں ‘‘ کا۔ ایک صدی یا سوا صدی کا زمانہ ہی درمیان سے خارج کر دیا ہے۔ یہ کیا ہے؟ یہ کوئی ذہول یا نسیان ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں، بلکہ یہ ان کے ہاتھوں کی وہ صفائی ہے، جس میں وہ بڑے مشاق ہیں۔ اس عبارت میں بھی انھوں نے اسی فن کاری کا مظاہرہ کیا ہے۔ وہ کس طرح؟ ملاحظہ فرمائیں۔
آپ ان کے پچھلے اقتباسات میں پڑھ آئے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سمیت پوری اُمتِ مسلمہ کو رجم کی سزا کا تو علم تھا اور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین نے یہ سزا دی بھی۔ لیکن یہ کسی کو علم نہیں تھا کہ یہ سزا ہے کس جرم کی؟ اس عقدے کو ’’تیرہ صدیوں ‘‘ کے بعد امام فراہی نے حل کیا کہ یہ سزا دراصل اوباشی اور آوارہ منشی کی تھی۔
فراہی صاحب کی تاریخ ولادت 1280ھ مطابق 1863ء اور تاریخِ وفات 1349ھ مطابق 1930ء ہے۔ گویا ان کا زمانہ آج سے ایک صدی یا اس سے کچھ زیادہ قبل کا ہے۔ اب یہ پندرھویں صدی ہے۔ اس پندرھویں صدی سے ایک صدی نکال دیں تو چودھویں صدی نکل جاتی ہے اور تیرھویں اور چودھویں صدی، فراہی صاحب کا عرصۂ حیات ہے۔ اور جب مسئلۂ رجم کی عقدہ کشائی فراہی صاحب سے پہلے نہیں ہوئی تو اُمتِ مسلمہ کی تاریکی کا دور، جس میں وہ اپنے پیغمبر سمیت ڈوبی رہی، تیرہ صدیوں تک ہی محیط بنتا ہے۔ اس تاریکی سے صاحبِ وحی و رسالت حضرت محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اور ان کی اُمت کو بھی تیرہ صدیوں کے بعد چودھویں صدی میں امام فراہی نے نکالا۔ یوں غامدی صاحب کے اس فرمان سے کہ ’’روایات کے تناقض کو پچھلی تیرہ صدیوں میں کوئی شخص دور کرنے میں کامیاب ہوا ہے اور نہ اب ہوسکتا ہے ‘‘ اس تناقض کو دور کرنے کا کریڈٹ اپنے امام کو دینا مقصود ہے۔ اس لیے انھوں نے چودہ صدی کے بجائے تیرہ صدی کے الفاظ استعمال کر کے نہایت چابک دستی اور فن کاری کا مظاہرہ کیا ہے ؎
بے خودی بے سبب نہیں غالب
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
‘‘پچھلی تیرہ صدی ‘‘ کے الفاظ میں یہی پردہ داری تھی، جس کی پردہ دری اﷲ کی توفیق سے ہم نے کر دی