کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 290
’’رجم کے بارے میں یہی روایات ہیں جو احادیث کی کتابوں میں مختلف طریقوں سے بیان ہوئی ہیں۔ ان کا ذرا تدبر کی نگاہ سے مطالعہ کیجیے۔ ’’پہلی بات جو ان روایات پر غور کرنے سے سامنے آتی ہے، وہ ان کا باہمی تناقض ہے، جسے نہ ان پچھلی تیرہ صدیوں میں کوئی شخص کبھی دور کرنے میں کامیاب ہوا ہے اور نہ اب ہو سکتا ہے۔ ‘‘[1] غامدی صاحب کا انصاف بھی ملاحظہ ہو اور عقل و دانش کی مقدار بھی (جس کی وہ مدارسِ دینیہ سے نفی کرتے ہیں۔ (برہان، ص: 85) کہ جن روایات کو ہدفِ تنقید بنا کر ان کو ردّ کیا ہے، ان میں سب سے پہلی روایت وہی ہے، جس کو خود اپنے استدلال میں انھوں نے پیش کیا ہے۔ اگر ان میں عقل و دانش کی تھوڑی سی بھی مقدار ہوتی تو وہ ان ‘‘مجروح اور مطعون ‘‘ روایات میں کم از کم اس روایت کو تو شامل نہ کرتے، جس کو خود انھوں نے بنائے استدلال بنایا ہے۔ اور ان کا انصاف بھی دیکھیے کہ ایک طرف فرما رہے ہیں کہ ’’ان روایات کا باہمی تناقض پچھلی تیرہ صدیوں میں کوئی شخص کبھی دور کرنے میں کامیاب ہوا ہے اور نہ اب ہو سکتا ہے۔ ‘‘ لیکن پھر خود ہی عبادہ بن صامت کی ’’مجروح و مطعون ‘‘ روایت کا تضاد بھی ایک توجیہ پیش کر کے دور کر دیا ہے۔ چہ خوب؟ آپ تیرہ صدیوں کے ائمہ، فقہا اور محدثین کی بابت نہایت بلند آہنگی سے دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ ان کا باہمی تناقض دور نہیں کر سکے۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ کے اس دعوے کو آپ ہی کی ’’زبانِ مبارک ‘‘ سے غلط ثابت کر دیا۔ آپ نے جو ایک روایت کی توجیہ کر کے اس کا تناقض دور کیا ہے، یہ حل آپ کا نہیں ہے، ائمہ سلف ہی کا ہے، اسی لیے تو تمام روایاتِ رجم تیرہ صدیوں ہی سے نہیں، چودہ صدیوں سے مسلّم چلی آرہی ہیں۔ کسی امام، فقیہ، محدث نے نہیں کہا کہ روایاتِ رجم باہم متناقض ہونے کی وجہ سے ناقابلِ اعتبار ہیں، اس لیے کہ جن باہم متعارض روایات کا توجیہ یا جمع و تطبیق کے ذریعے سے محمل تلاش کر لیا جاتا ہے، اس کے بعد نہ ان کے تعارض کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے اور نہ ان کو رد کیا جاتا ہے۔
[1] برہان، ص: ۶۰