کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 289
سزا دے دے، ورنہ کوڑوں کی سزا ہی کافی ہوگی۔ اس طرح نہایت آسانی سے روایات میں سزاؤں میں کمی بیشی کا جو مسئلہ ہے، جس کو غامدی صاحب تناقض باور کرا کے سب کو ناقابلِ اعتبار قرار دے رہے ہیں، آسانی سے حل ہوجاتا ہے اور تعارض اور تناقض باقی نہیں رہتا۔ اس کو محدثین کی اصطلاح میں ’’جمع و تطبیق ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح اور بھی بعض مسائل کی روایات میں اس طرح کے ظاہری تعارض کو، بلکہ قرآنِ کریم کی بھی بعض آیات کے ظاہری تعارض کو دور کیا گیا ہے، لیکن ائمۂ سلف اور فقہا و محدثین نے کبھی یہ روش اختیار کر کے یہ نہیں کہا کہ یہ روایات باہم متناقض ہیں، یا یہ آیاتِ قرآنیہ باہم متعارض ہیں، اس لیے یہ ردّی کی ٹوکری میں پھینکنے کے قابل ہیں، ان پر عمل نہیں کیا جا سکتا۔ اگر غامدی صاحب اپنے اس دعوے میں سچے ہوتے کہ ’’میرے اور ائمہ سلف کے موقف میں بال برابر فرق نہیں ہے ‘‘ تو وہ کبھی ان روایاتِ رجم کو اپنی سخن سازیوں کے ذریعے سے، ان میں بے معنی اشکالات پیدا کر کے اور اُن کو غلط رنگ دے کر اور نہایت بھونڈے انداز میں پیش کر کے ساقط الاعتبار قرار نہ دیتے، بلکہ احادیثِ رسول کا احترام کرتے ہوئے ان کے مابین معمولی سے ظاہری تعارض کو ائمہ سلف کی طرح نہایت آسانی سے دور کر سکتے تھے، جیسا کہ محدثین اور فقہا نے کیا ہے۔ اس میں دلچسپ لطیفہ یہی ہے کہ موصوف نے ایک روایتِ رجم کو اپنے مطلب کی سمجھ کر اس سے اپنا غلط مفہوم تو اَخذ کر لیا اور اس سے اوباشی کی سزا بھی ’’مستنبط ‘‘ فرما لی، جب کہ اس میں قطعاً اس سزا کا اشارہ تک بھی نہیں ہے، تاہم انھوں نے جیسا کچھ استدلال کیا، اس سے قطع نظر، استدلال تو کیا، لیکن اس میں بھی تعارض موجود تھا، جس کا حل آپ نے ان کے اقتباس میں ملاحظہ کر لیا ہے۔ یہی حل اور جمع و تطبیق کی اسی قسم کی صورتیں ائمہ سلف اور محدثین نے بھی پیش کی ہیں، وہ کیوں ناقابلِ قبول ہیں؟ اسی لیے ناقابلِ قبول ہیں کہ اصل مقصود احادیث کا رد اور ان کا انکار ہے اور یہ انکار کیوں ہے؟ کہ اس کے بغیر ان کا خانہ ساز نظریۂ رجم ع پائے چوبیں سخت بے تمکین بو د کا مصداق ثابت ہوجاتا ہے۔ اپنے بلند بانگ دعوے کی خود ہی تردید: ذرا دیکھیے! غامدی صاحب کتنی بلند آہنگی سے احادیثِ رجم کو ناکارہ ثابت کرنے کے بعد دعویٰ کرتے ہیں: