کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 287
میں شامل ہوگئے ہیں اور جس طرح وہ اپنی کتابوں پر نازاں، شاداں و فرحاں تھے، غامدی صاحب بھی اپنی اس ’’تصنیفِ کثیف ‘‘ یا ’’سعیِ غلیظ ‘‘ کو ایک بڑا اعزاز سمجھتے ہیں۔ واقعی ان کا یہ ’’کارنامہ ‘‘ اتنا ’’عظیم ‘‘ ہے کہ وہ اہلِ استشراق، منکرینِ حدیث اور قرآن کے نام پر ایک ’’تازہ شریعت ‘‘ ایجاد کرنے والوں کی طرف سے زیادہ سے زیادہ داد اور مبارک باد کے مستحق ہیں کہ ایک سنگ گراں کو ان کے ناپاک راستے سے ہٹا کر اس پر بگٹٹ دوڑنے کے لیے زمین ہموار کر دی گئی ہے۔ ع ایں کا ر از تو آید و مرداں چنیں کنند سچ ہے جس نے کہا: ؎ عین الرضا عن کل عیب کلیلۃ و عین السخط تبدي المساویا ’’رضا مندی کی آنکھ سے دیکھا جائے تو کوئی عیب نظر ہی نہیں آتا اور ناراضی کی آنکھ کو سوائے عیب کے کچھ نظر نہیں آتا۔ ‘‘ روایاتِ رجم میں ‘‘جمع و تطبیق ‘‘ کے بعد باہم کوئی تعارض نہیں رہتا: روایاتِ رجم کے اس تبصرۂ نامرضیہ میں البتہ دو چیزیں نہایت قابلِ غور ہیں، جو ﴿ اِِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِمَنْ کَانَ لَہٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقٰی السَّمْعَ وَھُوَ شَھِیْدٌ﴾(قٓ: 37) ’’بلاشبہہ اس میں اس شخص کے لیے یقیناً نصیحت ہے، جس کا کوئی دل ہو یا کان لگائے، اس حال میں کہ وہ (دل سے) حاضر ہو۔ ‘‘ کی مصداق ہیں۔ ایک یہ کہ رجم کی کئی حدیثوں میں اس حد کو اﷲ کا فیصلہ یا اﷲ کی کتاب کے مطابق فیصلہ قرار دیا گیا ہے، حتیٰ کہ جس ایک روایت (حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی) سے غامدی صاحب نے بھی استدلال کیا ہے، اگرچہ اسے اپنی روایتی چالاکی کے مطابق غلط رنگ میں پیش کیا ہے جس کی طرف ہم پہلے اشارہ کر آئے ہیں، اس میں بھی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حد کو اﷲ ہی کی طرف منسوب کیا ہے: قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لَھُنَّ سَبِیْلًا۔ لیکن ان روایات میں بیان کردہ اس حقیقتِ ثابتہ کو شیرِ مادر کی طرح ہضم کر گئے ہیں اور اس پر کچھ خامہ فرسائی نہیں فرمائی۔ صرف روایات کو کنڈم کرنے ہی کو شاید کافی سمجھ لیا کہ جب یہ روایات ہی ’نعوذ باللّٰہ ‘‘