کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 285
ان احادیث کو جو تبیینِ قرآنی پر مبنی ہیں، ان کو قرآن میں اضافہ یا قرآن میں ردّ و بدل قرار دے یا ان کی بابت یہ کہے کہ یہ شریعت کا بیان نہیں، فطرت کا بیان ہے؟ شریعت کو اپنے خیال کے مطابق دو حصوں میں تقسیم کرنا کہ یہ شریعت ہے اور یہ فطرت ہے، یہ بھی تو انسانی عقل ہی کی کارفرمائی ہے۔ اگر آج یہ حق فراہی عقل کو دے دیا گیا اور اُن کی عقل کے مطابق کچھ احکام کی شرعی حیثیت کو ختم کر دیا گیا تو دوسرے منکرینِ حدیث کا بھی یہ حق تسلیم کر لیا جانا چاہیے، جس کی رُو سے وہ کہتے ہیں کہ زکات و صلاۃ اور بہت سے مسلّماتِ اسلامیہ کا وہ مفہوم نہیں ہے، جو چودہ سو سال سے اُمتِ مسلمہ سمجھتی اور عمل کرتی آرہی ہے۔ دین تو پھر ان عقلی بازیگروں کی وجہ سے، جس کی بنیاد انکارِ حدیث پر ہے، بازیچۂ اطفال بن کر رہ جائے گا۔ اس لیے امتِ مسلمہ نے یہ حق آج سے صدیوں قبل معتزلہ، جہمیہ، قدریہ وغیرہ منکرینِ حدیث اور عقل و دانش کے دعوے داروں کو نہیں دیا، جس کی وجہ سے اصل دین الحمد ﷲ محفوظ ہے، تو یہ حق آج کے منکرینِ حدیث اور نظمِ قرآن کے نام پر فہمِ قرآن کے ٹھیکیداروں کو بھی نہیں دیا جا سکتا۔ مذکورہ فرقے جیسے کچھ عرصہ اپنی عقلی شعبدہ بازیاں دکھا کر تاریخ کی بھول بھلیوں میں گم ہوگئے، اس گروہِ جدید کا انجام بھی اس سے مختلف نہیں ہو گا اور ان کی فکری ترکتازیوں اور احادیث پر چاند ماری سے دین، جو قرآن اور حدیث دونوں کے مجموعے کا نام ہے، محفوظ رہے گا، اس لیے کہ اس کی حفاظت ہما شما کے ذمے نہیں ہے، بلکہ خود اﷲ نے اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے اور ﴿اِنَّ اللّٰہَ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ﴾ (آل عمران: 3) روایاتِ رجم میں خُردہ گیری، ہندو اور شیعہ کی خُردہ گیریوں کی طرح ہے: دوسرا نکتہ، جس کی ضروری وضاحت بھی ناگزیر ہے، وہ یہ ہے کہ غامدی صاحب نے رجم کی ان احادیث کو، جو احادیث کے صحیح مجموعوں میں صحیح سندوں کے ساتھ محفوظ ہیں، ان سب کو باہم متناقض اور ناقابلِ اعتبار قرار دے کر کنڈم کر دیا ہے، حالاں کہ یہ وہ روایات ہیں، جو صدیوں سے اہلِ علم میں متداول ہیں۔ کسی کو ان میں ایسا باہم تناقض اور تضاد نظر نہیں آیا جن کی توجیہ یا ان میں تطبیق ناممکن ہو، لیکن جب یہ روایات فراہی صاحب کے خانہ ساز نظریۂ رجم کے خلاف تھیں تو ان سب کو ناقابلِ اعتبار قرار دینا ناگزیر ہوگیا، کیوں کہ اس کے بغیر ان کے