کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 283
تعلیمات انسانی فطرت کے مطابق ہیں۔ قرآن کریم کی اس آیت میں بھی اسی بات کا بیان ہے: ﴿فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا﴾ (الروم: 30) ’’اس دینِ فطرت کی پیروی کرو، جس پر اﷲ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ ‘‘ ترجمہ از تدبرِ قرآن (5/ 90، طبع اول، 1977ء) فطرت کے اصل معنی خلقت (پیدائش) کے ہیں، یہاں مراد ملتِ اسلام (و توحید) ہے، مطلب یہ ہے کہ سب کی پیدائش، بغیر مسلم و کافر کی تفریق کے، اسلام اور توحید پر ہوئی ہے، اسی لیے توحید انسان کی فطرت، یعنی جبلت میں شامل ہے، جس طرح کہ عہدِ ﴿اَلَسْتُ﴾ سے واضح ہے، لیکن فطرت، یعنی اسلام و توحید پر پیدا ہونے کے باوجود انسانوں کی اکثریت کو ماحول یا دیگر عوارض، فطرت کی اس آواز کی طرف نہیں آنے دیتے، جس کی وجہ سے وہ کفر ہی پر باقی رہتے ہیں، جیسا کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے: ’’ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، لیکن پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی، عیسائی یا مجوسی (وغیرہ) بنا دیتے ہیں۔ ‘‘[1] ایک اور حدیث کا ترجمہ حسبِ ذیل ہے، نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سنو! میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ اس نے مجھے میرے آج کے دن میں جو کچھ سکھایا ہے، تمھیں اس میں سے کچھ وہ باتیں سکھاؤں جن سے تم واقف نہیں ہو (اﷲ فرماتا ہے) ہر وہ مال جو میں نے کسی بندے کو عطا کیا ہے، وہ حلال ہے اور میں نے اپنے تمام بندوں کو حنیف (اﷲ کی طرف یکسو ہوجانے والا) پیدا کیا ہے۔ (لیکن اس کے بعد ہوا یہ کہ) ان کے پاس شیاطین آئے اور انھوں نے ان کو ان کے دینِ (فطرت) سے پھیر دیا اور ان کے لیے وہ چیزیں حرام کر دیں، جو میں نے ان کے لیے حلال کی تھیں اور انھوں نے ان کو حکم دیا کہ میرے ساتھ ان چیزوں کو شریک بنائیں، جن کی میں نے کوئی دلیل نازل نہیں کی۔ ‘‘[2]
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث:۴۷۷۵۔ صحیح مسلم، رقم الحدیث :۲۶۵۸ [2] صحیح مسلم، رقم الحدیث :۲۸۶۵