کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 282
کو غنڈہ، آوارہ منش اور اوباش سمجھنے میں جھوٹے ہیں۔ فلعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین۔ علاوہ ازیں دونوں کا نظریہ کسی دلیل پر مبنی نہیں ہے، بلکہ اپنے گھڑے ہوئے نظریے اور ہٹ دھرمی پر قائم ہے۔ فتشابھت قلوبھم وأفکارھم۔ اللّٰھم لا تجعلنا منھم۔ سارا اسلام ہی دینِ فطرت ہے، محض چند احکام ہی فطرت نہیں ہیں: یہاں تک الحمدﷲ غامدی صاحب کے ضروری نکتوں پر بحث کر کے ہم نے ان کی حقیقت واضح کر دی ہے۔ اب دو پہلو تشنۂ تفصیل رہ گئے ہیں۔ ان پر بھی ضروری حد تک مختصراً گفتگو مناسب معلوم ہوتی ہے، تاکہ ان پہلوؤں سے بھی وہ ناپختہ ذہنوں کو گمراہ نہ کر سکیں۔ ان میں پہلا نکتہ، ان کا وہ نقطۂ انحراف ہے، جو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے منصبِ رسالت (تبیینِ قرآنی) کے مسلّمہ مفہوم کے انکار پر مبنی ہے۔ اہلِ اسلام میں اس کا مسلّمہ مفہوم، جو چودہ سو سال سے مسلّم چلا آرہا ہے، یہ ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے عموم میں تخصیص کر سکتے ہیں۔ اس کو بعض لوگوں نے نسخ سے بھی تعبیر کیا ہے، مراد ان کی بھی تخصیص ہی ہے، صرف اصطلاح کا فرق ہے۔ اس کی متعدد مثالیں ہم اپنے مضمون کے آغاز میں پیش کر آئے ہیں، یہ ایسے احکام ہیں جو صرف احادیثِ رسول سے ثابت ہیں، قرآن میں ان کا ذکر نہیں ہے۔ انہی میں سے ایک رجم کے حد شرعی کا حکم ہے۔ اہلِ اسلام ان کو بھی اسی طرح مانتے ہیں، جیسے قرآنی احکام کو مانتے ہیں۔ فراہی گروہ ایسے احکامِ حدیثیہ کو قرآن پر زیادتی، (قرآن میں اضافہ) قرآن کے خلاف اور قرآن میں تغیر و تبدل قرار دیتا ہے۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ یہ سب صحیح احادیث میں موجود ہیں جس کا مطلب ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین اور آپ کے عمل سے ثابت ہیں تو اس گروہ نے کہا کہ یہ سب فطرت کا بیان ہیں، یہ نہ قرآن میں اضافہ ہے اور نہ شریعت کا حصہ ہے، کیوں کہ اضافہ کرنے کا حق تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نہیں ہے۔ حالاں کہ اہلِ اسلام کے نزدیک یہ اضافہ نہیں، آپ کے منصبِ رسالت کا تقاضا ہے۔ اپنے اس نظریۂ فطرت پر بھی غامدی صاحب نے لاطائل بحثیں کی ہیں۔ ان کے مذکورہ دلائل کا نقد و محاکمہ کرنے کے بعد ہمارے نزدیک اس پر بحث غیر ضروری ہے۔ تاہم اس سلسلے میں ہم یہ ضرور عرض کریں گے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جو دینِ اسلام لے کر آئے، اسے دینِ فطرت بھی کہا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ اسلام کی