کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 281
ہے۔ تعالی اللّٰہ عما یقول الظالمون علواً کبیراً۔ فراہی نظریۂ رجم اور شیعوں کا نظریۂ وصیِ رسول۔ ۔ ۔ اصل میں دونوں ایک ہیں: ہمارے نزدیک فراہی گروہ کی اوباشی والی من گھڑت بات بالکل شیعوں کے گھڑے ہوئے عقیدۂ وصیِ رسول کی طرح ہے۔ شیعوں نے اپنی طرف سے یہ بات گھڑی کہ اﷲ کے رسول نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بابت وصیت فرمائی تھی کہ میری وفات کے بعد علی رضی اللہ عنہ خلیفہ اور میرے جانشین ہوں گے، لیکن حقیقت میں ایسی کسی وصیت کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اگر واقعی ایسی کوئی وصیت ہوتی تو صحابہ کرام یقیناً اس پر عمل کرتے اور آپ کی وفات کے بعد بالاتفاق حضرت علی کو خلیفۃ الرسول تسلیم کر کے ان کو امیر المومنین بنا لیا جاتا، لیکن چوں کہ ایسی کوئی دلیل نہیں تھی، اس لیے صحابہ نے مشاورت کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلیفۃ الرسول اور امیر المومنین بنا لیا۔ حضرات شیعہ نے بجائے اس کے کہ اپنے من گھڑت عقیدے کو چھوڑ دیتے، اپنے عقیدے اور من گھڑت نظریے پر اصرار کیا اور اس کو ثابت کرنے کے لیے خلفائے ثلاثہ کو بالخصوص ظالم، غاصب اور منافق اور دیگر تمام صحابہ کو بھی بالعموم، سوائے پانچ افراد کے، منافق و مرتد قرار دے دیا۔ صدیاں گزر جانے کے باوجود وہ اپنے اس بے بنیاد باطل نظریے پر قائم ہیں اور اس کی وجہ سے خلفائے ثلاثہ سمیت تمام صحابہ کو (نعوذ باﷲ) منافق و مرتد قرار دیتے اور سمجھتے ہیں۔ اسی طرح فراہی گروہ نے رجم کے حدِ شرعی نہ ہونے کا نظریہ گھڑا، اس کے لیے درجنوں صحیح، متواتر اور متفق علیہ روایات کا انکار کیا۔ جب اس سے بھی بات نہیں بنی، کیوں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حد شرعی کا نفاذ فرمایا اور اپنے فرامین میں بھی اسے حدِّ شرعی قرار دیا تو یہ بات بنائی کہ یہ تعزیری سزا ہے (حدِ شرعی نہیں ہے) جو اوباش اور آوارہ منش زانیوں کو (اگر وقت کا حکمران چاہے تو) دی جا سکتی ہے۔ اس پر اعتراض ہوا کہ یہ سزا تو پاکباز صحابہ و صحابیات کو بھی دی گئی تو یہ جسارت کر لی گئی کہ یہ صحابہ و صحابیات پاکباز نہیں، بلکہ (نعوذ باﷲ) غنڈے، بدمعاش اور اوباش قسم کے عادی زنا کار تھے اور صحابیہ بھی قحبہ (پیشہ ور زانیہ) تھی۔ ﴿کَبُرَتْ کَلِمَۃً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاھِھِمْ اِنْ یَّقُوْلُوْنَ اِلَّا کَذِبًا جس طرح شیعہ صحابہ کو بے ایمان اور مرتد سمجھنے میں جھوٹے ہیں، اسی طرح فراہی گروہ مذکورہ صحابہ و صحابیات