کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 279
الحمد ﷲ ہزاروں کی تعداد میں قرآن و حدیث پر گہری نظر رکھنے والے موجود ہیں، لیکن کسی پر بھی یہ بات واضح نہیں ہوئی اور نہ اب ہو رہی ہے کہ رجم کی سزا در حقیقت کس جرم کی سزا ہے؟
اس عقدے کو چودہ سو سال بعد ’’امام فراہی ‘‘ نے حل کیا کہ رجم کی یہ سزا دراصل آوارہ منشی، اوباشی اور غنڈہ گردی کی سزا ہے، قطع نظر اس کے کہ زانی کنوارا ہے یا شادی شدہ اور اس کا ماخذ آیتِ محاربہ کا لفظ:﴿اَنْ یُّقَتَّلُوْٓا﴾ (المائدۃ: 33)ہے۔
کیا کوئی جاہل سے جاہل مسلمان بھی، بشرطیکہ فراہی گروہ کی مذکورہ ہفوات نے اس کی عقل کو ماؤف نہ کر دیا ہو، یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار ہوگا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم، خلفائے راشدین اور دیگر صحابہ سمیت پوری امت کے علما و فقہا اس آیتِ محاربہ کے مفہوم سے بھی نا آشنا رہے اور رجم کی سزا کا مستحق کس قسم کا شخص ہوگا؟ یہ بھی کسی پر واضح نہ ہو سکا۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بعض مجرموں کو بغیر استحقاق کے یہ سزا شادی شدہ زانیوں کو دے دی، جب کہ یہ سزا تو اوباشی کی تھی نہ کہ زانی محصن کی اور ساری امت کے علما و فقہا و محدثین بھی اس ’’سرِّ مکنون ‘‘ سے ناآشنا ہی رہے ؎
سرِّ نہاں کہ عارف و زاہد بہ کس نہ گفت
در حیر تم کہ بادہ گسار از کجا شنید
آیتِ محاربہ کی رُو سے عہدِ رسالت کے مجرم سزا کے نہیں، معافی کے مستحق تھے:
فراہی گروہ کی سمجھ میں یہ بات بھی نہیں آئی کہ محاربہ کی سزا کی بابت تو اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ فساد فی الارض کے یہ مجرم اگر قابو میں آنے سے پہلے ہی تائب ہوجائیں تو ان کی سزا بھی موقوف ہوجائے گی۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جن بعض صحابہ یا صحابیہ سے زنا کا جرم صادر ہوا تو ان کو شادی شدہ ہونے کی وجہ سے رجم کی سزا دی گئی، حالانکہ انھوں نے بارگاہِ رسالت میں آکر از خود اعترافِ جرم اور سزا کے ذریعے سے پاک ہونے پر اصرار کیا تھا۔ اگر یہ سزا محاربہ کی سزا، یا آیتِ محاربہ کا اقتضا ہوتی تو ﴿اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَقْدِرُوْا عَلَیْھِمْ﴾ (المائدۃ: 34) ’’مگر جو لوگ اس سے پہلے توبہ کر لیں کہ تم ان پر قابو پاؤ۔ ‘‘ کے تحت وہ سزا کے نہیں، معافی کے مستحق تھے، کیوں کہ ان کی وجہ سے معاشرے میں نہ کوئی فساد مچا تھا اور نہ ان کو پکڑ کر ہی لایا گیا تھا۔