کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 277
میں دورِ حاضر کے ایک جلیل القدر عالم اور محقق امام حمید الدین فراہی نے اپنا وہ نقطۂ نظر پیش کیا ہے، جس سے صدیوں کا یہ عقدہ نہ صرف یہ کہ حل ہوجاتا، بلکہ یہ بات بھی بالکل نمایاں ہو کر سامنے آتی ہے کہ پیغمبر کا کوئی حکم بھی قرآن کے خلاف نہیں ہوتا۔ ‘‘[1]
ملاحظہ فرمائیے! سینہ زوری اور فریب کاری کی تکنیک کہ رجم کی حدِ شرعی کی بابت اُمتِ مسلمہ کا جو اجماع ہے، جس میں خلفائے راشدین و تمام صحابہ سمیت، تمام ائمۂ سلف، محدثین، مفسرین اور فقہا شامل ہیں، کیوں کہ اس اجماع کی پشت پر احادیثِ صحیحہ و متواترہ ہیں، اس کو صرف فقہا کی رائے قرار دیا ہے، تاکہ ان کا حلقۂ ارادت آسانی سے اس بات کو قبول کر لے، جو انھوں نے اگلے جملے میں اسے قرآن کے خلاف کہا ہے، کیوں کہ اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ رائے جو قرآن کے خلاف ہے، پوری اُمتِ مسلمہ کی متفقہ رائے ہے اور اہلِ اسلام کا اس پر اجماع ہے، تو پھر لوگوں کو مغالطہ دینا اور فریب میں مبتلا رکھنا نہایت مشکل ہوتا، اس لیے اسے صرف فقہا کی رائے کہا، تاکہ لوگ کہیں، ہوسکتا ہے کہ فقہا سے یہ اجتہادی غلطی ہوگئی ہو، حالاں کہ بات اس طرح نہیں ہے، یہ صرف فقہا کی بات یا رائے نہیں، ایک اجماعی اور مسلّمہ اسلامی عقیدہ ہے اور فقہا کے اجتہاد پر مبنی نہیں ہے، بلکہ قرآن و حدیث کے محکم اور نہایت واضح دلائل پر مبنی ہے۔
دوسری بات موصوف کے اقتباس سے یہ ظاہر ہوتی ہے کہ چودہ صدیاں گزر جانے کے بعد اس سزا کی اصل حقیقت کیا ہے؟ اس عقدے کو امام فراہی نے حل کیا ہے۔ اس نکتے پر بحث سے پہلے غامدی صاحب کا ایک اور اقتباس ملاحظہ فرما لیجیے، جس میں انھوں نے یہی بات زیادہ کھل کر کہی ہے۔ موصوف روایاتِ رجم کی الٹی سیدھی تاویلات، غلط سلط وضاحت یا آج کل کی اصطلاح میں ان کا ’’پوسٹ مارٹم ‘‘ کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’یہ ہیں وہ روایتیں اور مقدمات جن کی بنیاد پر ہمارے فقہا قرآن مجید کے حکم میں تغیر کرتے اور زنا کے مجرموں کے لیے ان کے محض شادی شدہ ہونے کی بنا پر رجم کی سزا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سارے مواد پر جو تبصرہ ہم نے کیا ہے، اس کی روشنی میں پوری دیانت داری کے ساتھ اس کا جائزہ لیجیے۔ اس سے زیادہ سے زیادہ کوئی بات اگر معلوم ہوتی ہے تو بس یہ ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین
[1] برہان، ص: ۵۷