کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 275
پر گفتگو آرہی ہے، فراہی گروہ قیامت تک۔ إن شاء اﷲ۔ جواب نہیں دے سکے گا۔ ﴿وَ ادْعُوْا شُھَدَآئَ کُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَ لَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْ وَقُوْدُھَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَۃُ اُعِدَّتْ لِلْکٰفِرِیْنَ﴾(البقرۃ: 23۔ 24) ’’اور اﷲ کے سوا اپنے حمایتی بلا لو، اگر تم سچے ہو۔ پھر اگر تم نے ایسا نہ کیا اور نہ کبھی کر سکو گے تو اس آگ سے بچ جاؤ، جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں، کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ ‘‘ اپنی عقل و دانش پر اس طرح کا ناز اور اپنے گمراہانہ افکار پر اس طرح کا ادّعا، اس سے پہلے بھی بہت سے گمراہ فرقوں اور اُن کے سرغنوں نے کیا ہے۔ لیکن آج ان کی شخصیتیں بھی تاریخ کے کوڑے دانوں میں تعفن زدہ پڑی ہیں، جن کے پاس سے گزرنا بھی کسی صحیح الفکر اور صحیح الدماغ شخص کے لیے ناممکن ہے اور ان کے افکارِ فاسدہ بھی عجائبات کے میوزیموں میں افسانہ ہائے پارینہ کے طور پر یا نشانِ عبرت کے لیے محفوظ ہیں۔ فراہی گروہ کے یہ افکارِ مُضلّہ بھی۔ إن شاء اﷲ۔ اسی عبرت انگیز حشر سے دوچار ہوں گے۔ فراہی افکار کی بنیاد دو چیزوں پر ہے، انکارِ حدیث اور قرآنِ کریم کی معنوی تحریف۔ اُمتِ مسلمہ جب تک اپنے پیغمبر کو، جو ان کے نزدیک حاملِ قرآن، مفسرِ قرآن اور مبینِ قرآن ہے، مانتی رہے گی اور اس کو ماننے کا مطلب، اس کی تفسیر و تشریح اور تبیینِ قرآنی کو، جس کو حدیث کہا جاتا ہے، ماخذِ شریعت تسلیم کرنا ہے، اس وقت تک اُمتِ مسلمہ کا اجتماعی ضمیر فکرِ فراہی کو کبھی ہضم نہیں کر سکے گا۔ غامدی صاحب علم و دانش کی کن مجالس کا حوالہ دے رہے ہیں، جہاں اس تحقیق کے لیے داد و تحسین کے سوا کچھ نہیں ہوگا؟ یہ مجالس مسلمان اہلِ علم و دانش کی تو ہر گز نہیں ہوسکتیں، اس لیے کہ کسی بھی مسلمان کا علم اور اس کی دانش، نہ انکارِ حدیث کے جرثومے کو پال سکتی ہے اور نہ قرآن کی تحریف معنوی کے زہرِ ہلاہل کو نوش جان کر سکتی ہے۔ دنیا میں ہر چیز کے گاہک اور ہر گمراہی کے خریدار موجود ہیں۔ الطاف حسین اور طاہر القادری اور اُن سے پہلے غلام احمد قادیانی جیسے مریض ذہن کے لوگوں کے بھی بے شمار پرستار ہیں۔ ان کے افکارِ باطلہ کے لیے بھی ایسی مجالس موجود ہیں، جہاں ان کے اوہامِ کاسدہ اور خیالاتِ فاسدہ کو انبیائے معصومین کی طرح مانا جاتا اور ان پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے جاتے ہیں۔ ’’طلوعِ اسلام ‘‘ کے نام پر غروبِ اسلام کی مجلسیں آج بھی،