کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 273
پر کسی خود ساختہ نظریے کو ‘‘نصوصِ قرآنی ‘‘ پر مبنی قرار دیا جا سکتا ہے؟ ظاہر بات ہے اس کا جواب نفی ہی میں ہوگا۔ جیسے ’’ختمِ نبوت ‘‘ کا مسئلہ ہے، جو قرآن کے لفظ ’خاتم النبیین ‘کے صحیح مفہوم پر مبنی ہے، لیکن مرزائی خاتم النبیین کی غلط تشریح کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مُہر سے نبی بن کر آیا کریں گے۔ اس طرح قرآن کے اس لفظ سے جو ختمِ نبوت پر نصِ صریح ہے، مرزائی اس کے برعکس اس کی غلط تشریح اور اس میں معنوی تحریف کر کے اجرائے نبوت کے خود ساختہ نظریے کا اثبات کرتے ہیں۔ اگر کوئی مرزائی کہے کہ ہمارا اجرائے نبوت کا عقیدہ ’’نصوصِ قرآنی ‘‘ پر مبنی ہے۔ کیا یہ دعویٰ یا عقیدہ صحیح ہوگا؟ پرویزی کہتے ہیں: ’’زکات کے معنی نشوو نما کے ہیں۔ لہٰذا ’’ایتائے زکات ‘‘ کے معنی ہوں گے: سامانِ نشو و نما مہیا کرنا اور یہ اسلامی حکومت کا فریضہ ہے کہ وہ افرادِ معاشرہ کی نشو و نما کا سامان فراہم کرے۔ ‘‘[1] لیجیے! اس ’’قرآنی ‘‘ مفہوم یا ’’نصوصِ قرآنی ‘‘ سے تمام مسلمان زکات ادا کرنے سے فارغ ہو گئے۔ رجم کی ’’فراہی تحقیق ‘‘ کی طرح زکات کی کیا خوب ’’تحقیق ‘‘ ہے!! اگر پرویزی بھی غامدی صاحب والی ’’قرآنی نصوص ‘‘ پر مبنی رجم کی بحث پڑھ لیں اور وہ بھی دعویٰ کر دیں کہ ہماری زکات والی تحقیق ’’نصوصِ قرآنی ‘‘ ﴿وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ﴾ پر مبنی ہے تو کیا وہ اپنے اس دعوے میں سچے ہوں گے اور علم و تحقیق کی دنیا میں اس دعوے کی پر ِکاہ کے برابر بھی حیثیت ہوگی؟ غامدی گروہ جواب دے! ‘‘اقامتِ صلاۃ ‘‘ کا پرویزی مفہوم: ایک اور مثال ملاحظہ فرمائیں۔ غلام احمد پرویز لکھتا ہے: ’’قرآن مجید کی ایک خاص اصطلاح ‘‘اِقامتِ صلوٰۃ ‘‘ ہے، جس کے عام معنی نماز قائم کرنا یا نماز پڑھنا کیے جاتے ہیں۔ لفظ صلوۃ کا مادہ ‘‘ص، ل، و ‘‘ ہیں، جس کے بنیادی معنی کسی کے پیچھے چلنے کے ہیں۔ اس لیے صلوٰۃ میں ’’قوانینِ خداوندی ‘‘ کے اتباع کا مفہوم شامل ہوگا۔
[1] ماہنامہ ’’طلوعِ اسلام‘‘ :مئی ۱۹۷۹ء