کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 272
جب ہر طرف ہاتھ پیر مار کر دیکھ لیا کہ کوئی بات نہیں بن رہی ہے، بھلا ہوا میں کون گرہ لگا سکتا ہے یا کون آسمان میں تھگلی لگا سکتا ہے؟ تو تمام ٹامک ٹوئیاں مارنے کے بعد اعتراف کرنے پر مجبور ہوگئے کہ ہمارا یہ نظریۂ رجم وحیِ خفی پر مبنی ہے۔ اس پر اعتراض ہوا کہ وحیِ خفی کو تو آپ مانتے ہی نہیں کہ اس کے ذریعے سے اﷲ کے رسول ایسا کوئی حکم دے سکتے ہیں، جو قرآن میں نہیں ہے۔ جب قرآن میں اوباشی کی سزا کا ذکر ہی نہیں ہے تو پھر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم وحیِ خفی کے ذریعے سے کس طرح یہ سزا دے سکتے تھے؟ یہ تو آپ کے بقول قرآن میں تغیر و تبدل ہے تو پھر اوباشی کی من گھڑت سزا کی بابت یہ دعویٰ کہ یہ وحیِ خفی سے ثابت ہے، کیا یہ قرآن میں تغیر و تبدل نہیں ہے؟ اسی طرح اس من گھڑت سزا کو ’’نصوصِ قرآنی پر مبنی ‘‘ قرار دینا اگر صحیح ہے تو پھر اسے حدِ شرعی میں شمار کیوں نہیں کیا؟ قرآنی نصوص پر مبنی سزا تو تعزیری سزا نہیں ہوسکتی، وہ تو حدِ شرعی ہے۔ اسی طرح غامدی صاحب کا یہ کہنا کہ ’’روایات میں بھی، جیسا کہ ہمارے تبصرے سے واضح ہے، اس کے شواہد موجود ہیں۔ ‘‘ روایات کو تو آپ مانتے ہی نہیں۔ علاوہ ازیں اس میں بھی آپ کی روایتی ہشیاری صاف جھلک رہی ہے کہ روایات پر آپ نے جو غلط تبصرہ کیا ہے، اس تبصرے کو آپ ’’ شواہد ‘‘ سے تعبیر کر رہے ہیں، اگر روایاتِ حدیث ’’شواہد ‘‘ ہیں تو صرف خالی روایات کا حوالہ دیں اور اپنے باطل تبصرے کے بغیر۔ اور روایات نہیں، بلکہ صرف ایک ہی روایت پیش کر دیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اوباشی کی سزا میں فلاں عورت یا فلاں مرد کو رجم کی سزا دی تھی؟ کیا قرآن کی معنوی تحریف کو ‘‘نصوصِ قرآنی ‘‘ کہا جا سکتا ہے؟ ہماری اس تفصیل سے واضح ہے کہ مزعومہ سزائے رجم کو قرآنی نصوص یا روایات پر مبنی قرار دینا بھی اسی طرح بدترین جھوٹ ہے، جیسے ان کا یہ دعویٰ کہ میرے موقف اور ائمۂ سلف کے موقف میں بال برابر بھی فرق نہیں ہے۔ اس تفصیل سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ خود ساختہ نظریۂ رجم قرآنی نصوص پر ہر گز مبنی نہیں ہے، بلکہ آیتِ محاربہ کی معنوی تحریف پر مبنی ہے، جس کی ہم پہلے وضاحت کر آئے ہیں۔ اب ہمیں اس نئی ‘‘دلیل ‘‘ پر غور کرنا ہے کہ قرآن کریم کے کسی لفظ کی ایسی تشریح جو آج تک کسی صحابی، تابعی، مفسر، محدث، امام و فقیہ نے نہیں کی، بلکہ وہ قرآن کی تحریف معنوی ہو، کیا ایسی تشریح یا ایسی تحریفِ معنوی کی بنیاد