کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 270
اگر رجم کی مزعومہ ’’تعزیری سزا ‘‘ آیتِ محاربہ کی نص اور سورت نور کی آیت 2 سے ثابت ہے (کیوں کہ آیت نور کو ملائے بغیر تو ’’نصوص ‘‘ (بصیغۂ جمع) نہیں کہا جا سکتا) تو اولاً اس کو تعزیری سزا کیوں کر قرار دیا جا سکتا ہے؟ پھر تو یہ حدِ شرعی ہوئی نہ کہ تعزیری سزا، جب کہ فراہی گروہ اس کو تعزیزی سزا قرار دیتا ہے۔ غامدی صاحب نے بھی بڑی وضاحت سے لکھا کہ ’’اﷲ تعالیٰ نے اپنے نبیوں کی وساطت سے جو شریعت عطا فرمائی ہے، اس میں زندگی کے دوسرے معاملات کے ساتھ جان، مال، آبرو اور نظم اجتماعی سے متعلق تمام بڑے جرائم کی سزائیں خود مقرر فرما دی ہیں۔ یہ جرائم درج ذیل ہیں: ٭ محاربہ اور فساد فی الارض۔ ٭ قتل و جراحت ٭ زنا ٭ قذف چوری۔ [1] پہلی سزا محاربہ اور فساد فی الارض یہ ایک ہی چیز ہے۔ اسی لیے اپنی دوسری کتاب ’’برہان ‘‘ میں صرف ’’محاربہ ‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ [2] اس اقتباس میں ’’نبی ‘‘ کے بجائے ’’نبیوں ‘‘ کا لفظ بھی قابلِ غور ہے، جسے ہم فی الحال نظر انداز کرتے ہیں، تاہم اتنا ضرور عرض کریں گے کہ ہماری شریعت تو شریعتِ محمدیہ ہے نہ کہ شریعتِ انبیا۔ یہاں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بجائے ’’نبیوں ‘‘ کا کہنا، ان کے گمراہ ذہن کا غماز اور عکاس ہے۔ بہر حال اس اقتباس میں آپ دیکھ لیں کہ شرعی سزائیں جن کو حد کہا جاتا ہے، وہ ان کے نزدیک صرف پانچ ہیں۔ اب ان کا یہ دعویٰ کہ آوارہ منشی اور اوباشی کی سزا، اﷲ کے رسول نے وحیِ خفی کے ذریعے سے رجم مقرر فرمائی ہے۔ نیز یہاں دعویٰ کیا کہ یہ ’’نصوصِ قرآنی ‘‘ پر مبنی ہے تو اﷲ کے رسول کی مقرر کردہ یہ چھٹی سزا، شرعی سزاؤں میں اس کا ذکر غامدی صاحب نے کیوں نہیں کیا ہے؟ اگر اوباشی کی یہ سزا ’’سزائے رجم ‘‘ وحیِ خفی پر اور ’’نصوصِ قرآنی ‘‘ پر مبنی ہے تو اسے حدودِ شرعیہ میں شمار کیوں نہیں کیا گیا؟ اسے تعزیری سزا کیوں کر کہا جا سکتا ہے؟
[1] میزان، ص: ۶۱۰ [2] برہان، ص: ۱۳۷