کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 269
سے ثابت نہیں ہوگا، بلکہ ٹھوس دلیل سے ثابت ہوگا اور نہ رجم کی متواتر روایات کو خبرِ آحاد کہہ دینے سے یا ان کی الٹی سیدھی باطل تاویلات کے ذریعے سے کنڈم کرنے کی مذموم اور ناپاک سعی سے اس بے بنیاد نظریے کو کوئی تقویت ہی مل سکتی ہے۔ اس لیے کہ اہلِ اسلام کا نظریۂ رجم ﴿کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُھَا فِی السَّمَآئِ﴾ (إبراھیم: 24) ’’ایک پاکیزہ درخت کی طرح (ہے) جس کی جڑ مضبوط ہے اور جس کی چوٹی آسمان میں ہے۔ ‘‘ کی مثل ہے اور فراہی نظریۂ رجم ﴿کَشَجَرَۃٍ خَبِیْثَۃِنِ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْاَرْضِ مَالَھَا مِنْ قَرَارٍ﴾ (إبراھیم: 26) ‘‘ایک گندے پودے کی طرح ہے، جو زمین کے اوپر سے اُکھاڑ لیا گیا، اس کے لیے کچھ بھی قرار نہیں۔ ‘‘ کا مصداق ہے۔ إن شاء اﷲ العزیز۔
ایک یکسر بے بنیاد دعویٰ اور ہمارا سوال:
لیکن باین ہمہ غامدی صاحب کی جراَت بھی دیکھیے اور خوش فہمی بھی! فرماتے ہیں:
’’امام فراہی کی یہ تحقیق قرآنِ مجید کے نصوص پر مبنی ہے اور روایات میں بھی، جیسا کہ ہمارے تبصرے سے واضح ہے، اس کے شواہد موجود ہیں۔ ‘‘[1]
اس میں غامدی صاحب نے نہایت بے باکی سے یہ نعرۂ مستانہ لگایا ہے کہ ’’امام ‘‘ فراہی کی یہ ’’تحقیق قرآن مجید کے نصوص پر مبنی ہے۔ ‘‘
اس دعوے میں اولاً قابلِ غور بات یہ ہے کہ جو بات نصوصِ قرآنی پر مبنی ہو، اسے کسی شخص کی ’’تحقیق ‘‘ قرار دیا جا سکتا ہے؟ نصِ صریح سے ثابت شدہ مسئلہ تو حکمِ قرآنی اور حکمِ الٰہی ہے نہ کہ کسی ’’امام ‘‘ کی تحقیق۔ اﷲ تعالیٰ نے وراثت کا ایک اصول یہ بیان فرمایا ہے:
﴿لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ﴾ (النساء: 11)
’’مرد کے لیے دو عورتوں کے حصے کے برابر حصہ ہے۔ ‘‘
اس کا مفہوم و مطلب کوئی شخص اردو میں بیان کر کے یہ کہے کہ یہ میری ’’تحقیق ‘‘ ہے یا میرے ’’استاد امام ‘‘ کی تحقیق ہے۔ جس کے پاس عقل و دانش کا کچھ بھی حصہ ہے وہ بقائمی ہوش و حواس ایسی بات کہہ سکتا ہے؟
[1] برہان:ص:91۔ 92