کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 266
خفی سے ایسا کوئی حکم دے سکتے ہیں، جو قرآن میں نہ ہو، آپ کے نزدیک تو ایسا حکم قرآن میں تغیر و تبدل ہے، جس کا حق کسی کو بھی حاصل نہیں ہے تو کیا قرآن کے لفظ ’تقتیل ‘سے رجم مراد لینا، جس کا ذکر قرآن میں نہیں ہے، قرآن میں تغیر و تبدل نہیں ہے؟ یا شریعت سازی نہیں ہے؟ شریعت سازی کا یہ حق صدیق و فاروق کے لیے آپ نہیں مانتے تو آپ کے امامِ اول اور آپ کو شریعت سازی کا یہ حق کیسے حاصل ہوگیا؟ اہلِ اسلام کہتے ہیں کہ قرآن میں زانی اور زانیہ کی جو سزا (سو کوڑے) بیان ہوئی ہے، حدیثِ رسول کی رُو سے وہ کنواروں کی سزا ہے اور شادی شدہ زانیوں کی سزا رجم ہے، جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمائی ہے اور اس کے مطابق آپ نے رجم کی سزا دی بھی ہے، آپ کے بعد خلفائے راشدین نے بھی یہ سزا دی اور اس کے حدّ شرعی ہونے پر پوری امت کا اجماع ہے۔ فراہی گروہ، مولانا حمید الدین فراہی سے لے کر مولانا اصلاحی، غامدی اور عمار ناصر تک، سب رجم کی صحیح، متواتر اور متفق علیہ روایات کے منکر ہیں اور کہتے ہیں کہ ان احادیث سے حدِّ رجم کا اِثبات قرآن کے خلاف اور قرآن میں ردّ و بدل ہے اور یہ حق رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حاصل نہیں ہے۔ اُمتِ مسلمہ کے اجماع کے برعکس فراہی گروہ کہتا ہے کہ رجم ایک تعزیری سزا ہے نہ کہ حدِّ شرعی، اور یہ شادی شدہ زانیوں کو نہیں، بلکہ اوباش قسم کے زانیوں کے لیے ہے اور وہ بھی وقت کے حکمران کی صواب دید پر منحصر ہے۔ اس کی دلیل کوئی حدیث نہیں، کیوں کہ وہ تو ویسے ہی ان کے نزدیک غیر معتبر ہے۔ صرف ان کے امامِ اول کا قرآن کے لفظ ’تقتیل ‘سے استنباط ہے، جس استنباط کی کوئی تائید کسی مفسر، محدث، فقیہ، امام نے نہیں کی، اور عربی لغت اور عرب کے دیوانِ جاہلیت سے بھی اس معنی کی تائید نہیں ہوتی۔ اس کی تائید صرف ان کے تلامذہ، پھر تلامذہ کے تلامذہ اور تلامذہ کے تلامذہ کر رہے ہیں!! اُمتِ مسلمہ کا نظریۂ رجم قرآن و حدیث کے ٹھوس دلائل پر مبنی ہے، اسی لیے وہ عہدِ رسالت سے آج تک مسلّم چلا آرہا ہے۔ گویا اس کی عمر چودہ سو سال اور ایک رُبع صدی ہے۔ فراہی نظریۂ رجم یکسر بے دلیل، بلکہ قرآن کی معنوی تحریف اور شریعت سازی پر مبنی ہے اور اس کی عمر ایک صدی سے بھی کم ہے یا زیادہ سے زیادہ ایک صدی سمجھی جا سکتی ہے۔ یہ خود ساختہ نظریہ کسی دلیل پر قائم نہیں ہے،