کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 263
باتیں نمایاں طور پر ملیں گی اور ہمیں یہ کہتے ہوئے نہایت دُکھ اور افسوس ہو رہا ہے کہ فراہی گروہ کے اکابر و اصاغر، سب کا رویہ بھی حدیث کے بارے میں بالکل یہی ہے، سرِ مو فرق نہیں ہے۔ ائمۂ سلف کا رویہ حدیث کے بارے میں کیا رہا ہے اور اب بھی ان کے پیروکار اہلِ اسلام کا رویہ کیا ہے؟ وہ یہ ہے کہ وہ اپنی طرف سے کوئی نظریہ گھڑ کر ’’دلائل ‘‘ تلاش نہیں کرتے، بلکہ قرآن کریم اور اس کی قولی و عملی تفسیر، حدیثِ نبوی، سے جو کچھ ملتا، ثابت ہوتا ہے، اس کو وہ حرزِجان اور آویزۂ گوش بنا لیتے ہیں اور اس پر عمل کو دین و دنیا کی سعادت کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر ان کا عقیدہ ہے کہ اﷲ نے قرآن کی حفاظت فرمائی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ اس قرآن کے اجمال کی تفصیل اور اس کے عموم کی تخصیص کرنے والی احادیث کو بھی محفوظ کر دیا ہے، کیوں کہ اس کے بغیر قرآن کی حفاظت کا مقصد ہی پورا نہیں ہوتا، جب اس کا سمجھنا ہی مشکل، بلکہ ناممکن ہوتا تو اس کو محفوظ کر دینے سے کیا ہوتا؟ اس کی محفوظیت کا فائدہ تو تب ہی ہے، جب اس کی وہ تبیین بھی محفوظ ہوتی، جس کو حدیث کہا جاتا ہے۔ اس لیے اہلِ اسلام کا بجا طور پر یہ عقیدہ ہے کہ حدیثِ رسول بھی الحمدﷲ اسی طرح محفوظ ہے، جیسے قرآنِ کریم محفوظ ہے۔ تیسرے، حدیثِ رسول کے محفوظ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جن محدثین نے ان احادیث کو جمع اور مدون کیا ہے، انھوں نے اپنے طور پر چھان پھٹک اور نقد و تحقیق کے بعد احادیث کو اپنی کتابوں میں درج کیا ہے۔ تاہم نقد و تحقیق میں کچھ نے تو نہایت اعلیٰ معیار سے کام لیا ہے، جس کی وجہ سے ان کا مجموعۂ احادیث اصح الکتب بعد کتاب اﷲ کا درجہ پا گیا، جیسے: صحیح بخاری ہے اور اس کے بعد صحیح مسلم ہے۔ ان دونوں کی صحت، بلکہ اصحیت اُمتِ مسلمہ میں مسلّم اور متفق علیہ ہے، اسی لیے ان کو صحیحین (صحیح حدیث کی دو کتابیں) کہا جاتا ہے۔ چناں چہ شاہ ولی اﷲ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (أما الصحیحان فقد اتفق المحدثون علی أن جمیع ما فیھما من المتصل المرفوع، صحیح بالقطع، وأنھما متواتران إلی مصنفیھما، وأنہ کل من یھوِّن أمرھما فھو مبتدع متبع غیر سبیل المؤمنین)[1]
[1] حجۃ اللّٰہ البالغۃ:۱/ ۱۳۴، طبع لاہور