کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 260
کرے گا تو دوسروں پر جھوٹی تہمتیں بھی لگائے گا۔ ‘‘[1]
ابن رشد کا یہ اقتباس نقل کر کے غامدی صاحب فرماتے ہیں:
’’اس سے واضح ہے کہ یہ (سزا) ہرگز شریعت نہیں ہوسکتی۔ اس زمین پر قیامت تک کے لیے یہ حق صرف محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے کہ وہ کسی چیز کو شریعت قرار دیں اور جب ان کی طرف سے کوئی چیز شریعت قرار پا جائے تو پھر صدیق و فاروق بھی اس میں کوئی تغیر و تبدل نہیں کر سکتے۔ یہ (سزا) اگر شریعت ہوتی تو نہ سیدنا صدیق اسے چالیس کوڑوں میں تبدیل کرتے اور نہ سیدنا فاروق ان چالیس کو اسّی میں بدلتے۔ اس صورت میں یہ حق ان میں سے کسی کو بھی حاصل نہیں تھا۔ ۔ ۔ چناں چہ ہم پورے اطمینان کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ یہ کوئی حد نہیں ہے، بلکہ محض تعزیر ہے، جسے مسلمانوں کا نظمِ اجتماعی (حکمران)، اگر چاہے تو برقرار رکھ سکتا ہے اور چاہے تو اپنے حالات کے لحاظ سے اس میں تغیر و تبدل کر سکتا ہے۔ ‘‘[2]
شراب نوشی کی سزا ‘‘چالیس کوڑے ‘‘ حدِ شرعی ہے:
اس پورے اقتباس کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں شرابی کو صرف زد و کوب کیا گیا ہے، کوڑے نہیں مارے گئے۔ سب سے پہلے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے 40 کوڑے مارے، پھر حضرت عمر نے 40 کو اسی کوڑوں میں تبدیل کر دیا، لہٰذا معلوم ہوا کہ شراب نوشی کی حد چالیس کوڑے نہیں ہے، بلکہ یہ کوڑے تعزیری سزا ہے، جو حاکمِ وقت کی صواب دید پر منحصر ہے، وہ کوئی بھی سزا دے سکتا ہے۔
شراب نوشی کی سزا کو حدِ شرعی سے خارج کرنے کے لیے غامدی صاحب نے پہلے تو ان صحیح احادیث کو ذکر نہ کر کے گویا ان کو رد کر دیا ہے، جن میں صراحت ہے کہ 40 کوڑوں کی یہ سزا خود نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔ چناں چہ صحیح مسلم میں ہے کہ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص لایا گیا، جس نے شراب پی تھی، آپ نے اس کو دو چھڑیوں کے ساتھ تقریباً چالیس کوڑے لگائے، اسی روایت میں آگے ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی ایسا ہی کیا، پھر جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا دور آیا تو انھوں نے لوگوں سے مشورہ کیا، عبدالرحمن (بن عوف) نے کہا: سب سے ہلکی حد
[1] بدایۃ المجتھد:۲/ ۳۳۲
[2] برہان، ص: ۱۳۸۔ ۱۳۹طبع پنجم