کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 259
پھر ان سب سے بڑھ کر یہ سوال ہے کہ قرآن میں معنوی تحریف کر کے شریعت سازی کا حق اس گروہ کو کس طرح حاصل ہوگیا ہے؟ ﴿اَنْ یُّقَتَّلُوْٓا﴾ (المائدۃ: 33) کے مفہوم میں رجم کو شامل کرنا، قرآن میں تحریفِ معنوی ہے اور اس تحریفِ معنوی کی بنیاد پر اسلام میں اوباشی اور آوارہ منشی کی ایک نئی سزا مقرر کرنا، شریعت سازی نہیں ہے تو کیا ہے؟ اسے تشریح و تفسیر تو نہیں کہا جا سکتا، کسی لفظ کی تشریح میں ایک شرعی حکم کا ایجاد کرنا، تشریح نہیں، شریعت سازی کہلائے گا۔
زانی یا زانیہ کو، چاہے وہ زنا کے کتنے ہی عادی ہوں، اول تو یہ بالعموم عادی یا غیر عادی کا پتا چلانا ہی مشکل ہے، اگر پتا چل بھی جائے تو اسے نہ محارب کہا جاتا ہے اور نہ سمجھا جاتا ہے اور نہ کسی نے عادی زانی کے لیے رجم کی سزا ہی تجویز کی ہے۔ پھر ستم بالائے ستم، اسے قرآنی سزا کہنا ایسی شوخ چشمانہ جسارت ہے، جس کی جراَت چودہ سو سال کی تاریخ میں کسی کو نہیں ہوئی۔
اسی لیے ہم پورے یقین و اِذعان سے کہتے کہ فراہی کی یہ جسارت قرآنِ کریم کی معنوی تحریف بھی ہے، جو یہودیانہ تلبیس کاری ہے اور شریعت سازی بھی ہے، جس کا حق اﷲ اور اس کے رسول کے سوا کسی کو حاصل نہیں۔
شریعت سازی کا حق ابوبکر و عمر کو نہیں تو فراہی گروہ کو یہ حق کیسے حاصل ہوگیا؟
غامدی صاحب بھی تسلیم کرتے ہیں کہ شریعت سازی کا حق رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں، حتیٰ کہ ابوبکر و عمر کو بھی یہ حق حاصل نہیں۔
چناں چہ وہ شراب کی حد ’’چالیس کوڑے ‘‘ کو پہلے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کرتے ہیں کہ یہ انھوں نے اپنے دورِ خلافت میں مقرر کی۔ پھر کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں یہ دیکھا کہ لوگ اس جرم سے باز نہیں آتے تو اسے اَسّی کوڑے میں بدل دیا۔ پھر ابن رشد کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’جمہور کا مذہب اس معاملے میں صحابہ کرام کے ساتھ سیدنا فاروق کی مشاورت پر مبنی ہے، جو اس وقت ہوئی، جب ان کے زمانے میں لوگ کچھ زیادہ شراب پینے لگے اور سیدنا علی نے مشورہ دیا کہ حدِ قذف پر قیاس کرتے ہوئے اس کی سزا بھی اسّی کوڑے مقرر کر دی جائے۔ چناں چہ بیان کیا جاتا ہے کہ اس کے استدلال میں انھوں نے فرمایا: یہ جب پیے گا تو مدہوش ہوگا اور مدہوش ہوگا تو بکواس کرے گا اور بکواس