کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 257
نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو کوئی حدیث اپنی طرف سے گھڑ کر آپ کی طرف منسوب کرنے پر جہنم کی شدید وعید بیان فرمائی ہے۔ غامدی صاحب کا جرم تو اس سے بھی شدید تر ہے کہ آپ کی حدیث بیان کر کے اپنا من گھڑت نظریہ آپ کے ذمے لگا رہے ہیں، جس کا اس حدیث میں کوئی اشارہ تک نہیں ہے ع چہ دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارد یا قدرے تصرف کے ساتھ ؎ وہ بات ان کو بہت خوشگوار لگتی ہے حدیث میں جس بات کا کوئی ذکر نہیں موصوف حدیثِ مذکور بیان کر کے کتنی بے باکی سے کہتے ہیں: ’’آپ کا منشا یہ تھا کہ یہ عورتیں چوں کہ محض زنا ہی کی مجرم نہیں ہیں، بلکہ آوارہ منشی اور جنسی بے راہ روی کو اپنا معمول بنا لینے کی وجہ سے فساد فی الارض کی مجرم بھی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ سوال یہ ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ منشا آپ کو کس طرح معلوم ہوا؟ حدیث میں تو اس کا کوئی قرینہ اور اشارہ نہیں ہے۔ کیا آپ کو وحی کے ذریعے سے بتلایا گیا ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ اوباشی، آوارہ منشی، غنڈہ گردی یا جنسی بے راہ روی کی کوئی الگ سزا کا اسلام میں کوئی تصور ہے؟ اسلامی لٹریچر میں حدود و تعزیرات پر جو کتابیں تحریر کی گئی ہیں یا احادیث کی کتابوں میں حدود کے ابواب ہیں یا مفسرین نے آیاتِ حدود کی جو تفسیریں کی ہیں، کیا کہیں بھی اوباشی اور آوارہ منشی کی کوئی سزا کسی نے بیان کی ہے؟ قرآن مجید میں یقیناً آیتِ محاربہ موجود ہے اور اس کے مرتکبین کو جمع کے صیغے کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس میں ایسے منظم جتھے یا ٹولے کا ذکر ہے جو اسلامی حکومت کے خلاف باغیانہ سرگرمیوں میں ملوث ہو یا لوگوں کے جان و مال کے لوٹنے اور قتل و غارت گری کے مرتکب ہوں، ان کے لیے یہ چار سزائیں بیان کی گئی ہیں کہ خلیفۂ وقت اس ٹولے کے جرائم کے مطابق ان میں سے کوئی بھی ایک سزا ان کو دے سکتا ہے۔ لیکن فراہی گروہ سے پہلے کسی مفسر، کسی فقیہ، کسی امام اور عالم نے اس محاربہ کے مرتکبین میں زنا کے