کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 256
دی جائے گی۔ ‘‘[1] ’’آپ کا منشا یہ تھا کہ یہ عورتیں چوں کہ محض زنا ہی کی مجرم نہیں ہیں، بلکہ اس کے ساتھ آوارہ منشی اور جنسی بے راہ روی کو اپنا معمول بنا لینے کی وجہ سے فساد فی الارض کی مجرم بھی ہیں، اس لیے ان میں سے جو اپنے حالات کے لحاظ سے نرمی کی مستحق ہیں، انھیں زنا کے جرم میں سورۂ نور کی آیت 2 کے تحت سو کوڑے اور معاشرے کو ان کے شر و فساد سے بچانے کے لیے ان کی اوباشی کی پاداش میں سورۂ مائدہ کی آیت 33 کے تحت نفی، یعنی جلا وطنی کی سزا دی جائے۔ اس طرح جن کے ساتھ کوئی نرمی برتنا ممکن نہیں ہے، وہ اس آیت کے حکم: ﴿اَنْ یُّقَتَّلُوْٓا﴾ (المائدۃ: 33)کے تحت رجم کر دی جائیں۔ ‘‘[2] سزائے رجم کے بارے میں یہ غامدی صاحب کا موقف ہے، جسے ہم نے بعینہٖ مکمل شکل میں پیش کر دیا ہے۔ اس میں سب سے پہلے تو غامدی صاحب کی جراَتِ رندانہ کی داد دیجیے کہ انھوں نے صحیح مسلم کی حدیث اپنے استدلال میں پیش کی ہے، جس میں واضح طور پر نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کنوارے اور شادی شدہ دونوں کی الگ الگ سزائیں بیان فرمائی ہیں، یعنی دو قسم کے مجرموں کے لیے ایک دوسرے سے مختلف دو سزائیں تجویز کی ہیں (جس کی تائید آپ کے عمل سے بھی ہوتی ہے) اور ان دونوں مجرموں کی نوعیت بھی واضح کر دی ہے کہ ایک کی نوعیت کنوارے کی ہے اور دوسرے کی نوعیت شادی شدہ کی ہے۔ حدیث میں کوئی ابہام یا خفا نہیں ہے اور جرم کی نوعیت میں بھی کوئی ابہام نہیں ہے، یعنی وہ صرف اور صرف زنا ہے۔ اس کے علاوہ حدیث میں کوئی اشارہ ایسا نہیں ہے، جس سے یہ معلوم ہو کہ زنا کرنے والی عورت اگر زنا کی عادی اور پیشہ کرانے والی، یعنی قحبہ ہو تو پھر رجم کی سزا دی جائے گی اور اگر وہ قحبہ نہ ہو، یعنی آوارہ منش اور اوباش نہ ہو تو اس کو صرف کوڑوں کی سزا دی جائے گی۔ لیکن غامدی صاحب بیان تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کر رہے ہیں، لیکن آپ کے ذمے وہ بات لگا رہے ہیں، جو اس فرمان کے کسی لفظ سے نہیں نکلتی۔ اسی طرح حدیث میں زانی مرد ہو یا عورت، دونوں کے لیے سزا کا بیان ہے، لیکن غامدی صاحب اس کا اطلاق صرف زانیہ پر کر رہے ہیں، یعنی آپ نے اس میں زانیہ کی سزا بیان کی ہے۔
[1] صحیح مسلم، رقم الحدیث :۴۴۱۴ [2] میزان، ص: ۳۹۔ ۴۰