کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 255
تفاسیر کا تو تمام تر موضوع ہی وہ آیات ہیں، جن سے احکامِ شرعیہ کا اثبات یا استنباط ہوتا ہے۔ ان کے مفسرین و مولفین ایک ایک آیت سے دسیوں مسائل کا استنباط و استخراج کرتے ہیں، لیکن کسی عالم، فقیہ، امام، محدث نے آج تک یہ نہیں بتلایا کہ حکمِ رجم کا ماخذ یہ احادیث نہیں ہیں، بلکہ یہ تو غیر معتبر ہیں۔ رجم کا اصل ماخذ تو فلاں آیت قرآنی کا فلاں لفظ ہے، حتیٰ کہ قرآن فہمی کا یہ ملکہ، جو مولانا فراہی کو ملا، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی (نعوذ باﷲ) نصیب نہیں ہوا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو فرماتے رہے کہ رجم کا یہ حکم اﷲ کی کتاب کا فیصلہ یا اس کا حکم ہے، لیکن آپ نے مولانا فراہی یا اصلاحی اور غامدی کی طرح یہ نہیں بتلایا کہ اس کا ماخذ قرآن کی فلاں آیت اور اس کا فلاں لفظ ہے۔ جس طرح کہا جاتا ہے کہ امریکہ کولمبس کی دریافت ہے، اسی طرح رجم کے ماخذ قرآنی کی دریافت حمید الدین فراہی کا ’’کارنامہ ‘‘ ہے۔ بتلائیے! اس جراَت رندانہ یا شوخ چشمانہ جسارت کو کیا کہا جائے؎ کاش، کرتا کوئی اس بندۂ گستاخ کا منہ بند عجیب و غریب تضاد یا منصبِ رسالت کے ساتھ مذاق: ہم یہ باتیں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہے ہیں، الفاظ ضرور ہمارے ہیں، لیکن غامدی صاحب نے جو خامہ فرسائی کی ہے اور جو لالہ و گل بکھیرے ہیں، ان کا خلاصہ یہی ہے۔ ان کے اپنے الفاظ ملاحظہ فرمائیے! ’’سورۂ مائدہ کی آیات (33۔ 34) میں اﷲ تعالیٰ نے فساد فی الارض کے مجرموں کی یہ سزا بیان کی ہے کہ انھیں بدترین طریقے سے قتل بھی کیا جا سکتا ہے، سولی بھی دی جا سکتی ہے، ان کے ہاتھ پاؤں بے ترتیب کاٹے بھی جا سکتے ہیں اور انھیں جلا وطن بھی کیا جا سکتا ہے۔ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکم کا اطلاق اپنے زمانے کی عورتوں پر کیا اور فرمایا: ’’مجھ سے لو، مجھ سے لو، مجھ سے لو، اﷲ نے ان عورتوں کے لیے راہ نکال دی ہے۔ اس طرح کے مجرموں میں کنوارے کنواریوں کے ساتھ ہوں گے اور انھیں سو کوڑے اور جلا وطنی کی سزا دی جائے گی۔ اسی طرح شادی شدہ مرد و عورت بھی سزا کے لحاظ سے ساتھ ساتھ ہوں گے اور انھیں سو کوڑے اور سنگ ساری کی سزا