کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 254
بھی آپ کو یہ بات نہیں ملے گی کہ یہ تفتیش و تحقیق کی گئی ہو کہ زنا کا ارتکاب کرنے والا مرد یا عورت قحبہ (زنا کی عادی مجرم، پیشہ ور زانی) اور غنڈہ، اوباش (زنا کا عادی مجرم) ہے؟ صرف اس امر کی تحقیق کی گئی کہ مجرم کنوارا ہے یا شادی شدہ۔ اس کے مطابق کوڑوں کی (غیر شادی شدہ کو) یا رجم کی (اگر وہ شادی شدہ ہوتا یا ہوتی) سزا دی گئی۔ فراہی گروہ کی جرأت رندانہ یا شوخ چشمانہ جسارت: اب یہ کہنا کہ سزائے رجم الفاظِ قرآن کی دلالت سے ثابت نہیں ہوتی اور ایسا کوئی استنباط یا استدلال جس کے الفاظِ قرآن متحمل نہ ہوں، قطعاً جائز نہیں ہے، حتیٰ کہ پیغمبر بھی ایسا کرنے کا مجاز نہیں ہے اور پیغمبر کا یہ فعل تبیینِ قرآنی میں نہیں آتا، بلکہ یہ (نعوذ باﷲ)قرآن میں تغیر و تبدل ہے جس کا حق رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نہیں ہے۔ یہ فراہی، غامدی یا اصلاحی گروہ کا موقف ہے، جس کی رُو سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا رجم کی حد نافذ کرنا اور اسے اﷲ کا حکم قرار دینا، قرآن کے خلاف اور اس سے تجاوز ہے۔ اسی طرح خلفائے راشدین سمیت پوری امت کے علما و فقہا، ائمہ و محدثین، جو شادی شدہ زانی کی حد ’’سزائے رجم ‘‘ سمجھتے آئے ہیں، غلط ہیں، نہ انھوں نے قرآن کو سمجھا ہے اور نہ اس سے متعلقہ حدیثی روایات کو۔ اس رجم کی حقیقت کو 14 سو سال بعد اگر کسی نے سمجھا ہے تو سب سے پہلے مولانا حمید الدین فراہی ہیں، جن کی ولادت 1863ء اور وفات 1930ء میں بھارت میں ہوئی اور دیدہ دلیری کی انتہا یہ دعویٰ ہے کہ انھوں نے اس سزائے رجم کا ماخذ قرآن سے تلاش کیا ہے۔ یعنی قرآن اﷲ کے پیغمبر پر نازل ہوا، لیکن پیغمبر بھی یہ نہ سمجھ سکا کہ رجم کا حکم کس آیت یا آیت کے کس لفظ سے نکلتا ہے؟ صحابۂ کرام بھی اس کا مبنیٰ نہیں سمجھ سکے، چودہ سو سال سے قرآن کی تفسیریں مختلف انداز سے بڑے بڑے ائمۂ تفسیر و حدیث لکھتے آرہے ہیں، حتیٰ کہ احکام القرآن پر بھی متعدد کتابیں لکھی گئیں: أحکام القرآن للقرطبي، أحکام القرآن لابن العربي، أحکام القرآن للجصاص، أحکام القرآن للتھانوي اور ’نیل المرام في تفسیر آیات الأحکام ‘(نواب صدیق حسن خان) وغیرہ ہیں۔ عام تفاسیر میں بھی آیاتِ احکام سے متعلقہ احکام و مسائل کا استنباط ہے، لیکن احکام القرآن نامی