کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 253
اگر ہمارے پیغمبر نے یہ سزائیں یا صرف ایک سزائے رجم اپنی طرف سے گھڑی ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یقیناً مواخذۂ الٰہی سے محفوظ نہ رہتے۔ آپ کا اس مواخذے سے محفوظ رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ حدِ رجم کی یہ سزا، وعدۂ الٰہی کے مطابق عبوری سزا کے بعد، مستقل سزا اﷲ تعالیٰ ہی نے وحیِ خفی کے ذریعے سے مقرر فرمائی ہے۔ اسی لیے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نئے حکم کو اﷲ تعالیٰ ہی کی طرف منسوب کیا ہے۔ اور بھی بعض مواقع پر آپ نے شادی شدہ زانیوں کے لیے یہ حدِ رجم بیان فرمائی اور اسے ’’کتاب اﷲ ‘‘ کا فیصلہ قرار دیا، جیسے: حدیث میں ایک مزدور کے والد اور ایک بیوی کے خاوند کا واقعہ بیان ہوا ہے کہ اس کے بیٹے نے اس کی بیوی سے زنا کر لیا تھا۔ دونوں نے آکر رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بیک زبان یہ کہا کہ اﷲ کی کتاب کے ساتھ ہمارا فیصلہ فرمائیے! ایک نے کہا: ’(ُنْشِدُکَ اللّٰہَ إِلَّا قَضَیْتَ لِيْ بِکِتَابِ اللّٰہِ) (میں آپ کو اﷲ کی قسم دلاتا ہوں کہ آپ صرف اﷲ کی کتاب کے ساتھ میرا فیصلہ فرمائیں) دوسرے نے کہا: ’نَعَمْ، فَاقْضِ بَیْنَنَا بِکِتَابِ اللّٰہِ ’(ہاں! ہمارے درمیان اﷲ کی کتاب کے ساتھ فیصلہ فرمائیں) رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کی باتیں سن کر فرمایا: ’وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہٖ لَأَقْضِیَنَّ بَیْنَکُمَا بِکِتَابِ اللّٰہِ ’ ’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں یقیناً تم دونوں کے درمیان اﷲ کی کتاب کے ساتھ ہی فیصلہ کروں گا۔ ‘‘ پھر آپ نے فیصلہ کیا فرمایا؟ یہی کہ ’’تیرے بیٹے کو سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی کی سزا ہے اور عورت کے لیے اگر وہ اعترافِ جرم کر لے تو رجم کی سزا ہے۔ ‘‘ چناں چہ آپ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو یہ حکم دے کر بھیجا کہ جا کر پوچھو، اگر عورت اعتراف کر لے تو اس کو رجم کر دو! حضرت انس گئے، پوچھا تو اس نے اعتراف کر لیا اور پھر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر اس کو رجم (سنگسار) کر دیا گیا۔ [1] اس واقعے کو دیکھ لیجیے اور عہدِ رسالت اور خلافتِ راشدہ کے عہد کے واقعاتِ رجم کو دیکھ لیجیے! کسی واقعے میں
[1] صحیح مسلم، کتاب الحدود، رقم الحدیث:1698