کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 252
ہے، جو کلامِ الٰہی کے منشا کے خلاف یا الفاظِ قرآنی کی دلالت کے منافی ہو؟ حدِ رجم اﷲ کا حکم ہے: اﷲ تبارک و تعالیٰ نے تو واضح الفاظ میں اپنے پیغمبر کے بارے میں فرمایا ہے: ﴿وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیْلِ لَاَخَذْنَا مِنْہُ بِالْیَمِیْنِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْنَ﴾ (الحاقۃ: 44۔ 46) ’اگر وہ ہم پر کچھ باتیں گھڑ کر لگا دیتا تو ہم اس کے دائیں ہاتھ کو (یا دائیں ہاتھ کے ساتھ) پکڑ لیتے، پھر ہم اس کی شہ رگ کاٹ دیتے۔ ‘‘ یہ اﷲ نے کوئی اصول بیان نہیں کیا ہے، بلکہ خاص رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت بتلایا ہے کہ اگر یہ کوئی بات اپنی طرف سے گھڑ کر ہماری طرف منسوب کر دیتے تو ہم سخت مواخذہ کرتے۔ اس آیت میں گویا اس بات کی وضاحت ہے کہ آپ نے اپنی طرف سے کوئی بات بنا کر اﷲ تعالیٰ کے ذمے نہیں لگائی۔ اس آیت کی روشنی میں آپ رجم کی احادیث دیکھ لیں۔ ان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تو اس بات کو واضح فرمایا کہ رجم کی یہ حد ان زانیوں کے لیے ہے، جو شادی شدہ ہونے کے باوجود اس فعلِ شنیع کا ارتکاب کرتے ہیں۔ دوسرے، یہ بھی واشگاف الفاظ میں فرمایا کہ یہ سزا میں اپنی طرف سے نہیں، بلکہ اﷲ تعالیٰ کے حکم پر دے رہا ہوں۔ جب سورت نساء کی آیت: ﴿وَ الّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ﴾ (النساء: 15) میں بیان کردہ عبوری سزائے زنا ختم کر کے زنا کی مستقل سزا مقرر کی گئی تو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ( خُذُوْا عَنِّي، خُذُوْا عَنِّيْ، خُذُوْا عَنِّيْ، قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لَھُنَّ سَبِیْلًا )[1]الحدیث ’’مجھ سے لے لو، مجھ سے لے لو، مجھ سے لے لو، اﷲ نے ان (زانی عورتوں) کے لیے راستہ بنا دیا ہے۔ یعنی مستقل سزا مقرر کر دی ہے۔ ‘‘ اور پھر آپ نے یہی دو سزائیں، ایک غیر شادی شدہ کے لیے (سو کوڑے) اور شادی شدہ کے لیے رجم، بیان فرمائیں۔ نیز اسے ’’کتاب اﷲ ‘‘ کے فیصلے سے بھی تعبیر فرمایا، جیسا کہ پہلے گزر چکا اور مزید تفصیل آگے آرہی ہے۔
[1] صحیح مسلم، رقم الحدیث :۱۶۹۰