کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 251
ایک اور طریقے سے بہ لطائف الحیل حدیث کا انکار: اس سے اگلا پیرا ملاحظہ فرمائیں، اس میں بھی بہ لطائف الحیل احادیث کا انکار ہے: ’’اس (قرآن) کے الفاظ کی دلالت اس کے مفہوم پر بالکل قطعی ہے۔ یہ جو کچھ کہنا چاہتا ہے، پوری قطعیت کے ساتھ کہتا ہے اور کسی معاملے میں بھی اپنا مدعا بیان کرنے سے قاصر نہیں رہتا۔ اس کا مفہوم وہی ہے، جو اس کے الفاظ قبول کر لیتے ہیں، وہ نہ ان سے مختلف ہے نہ متباین۔ اس کے شہرستانِ معانی تک پہنچنے کا ایک ہی دروازہ ہے اور وہ اس کے الفاظ ہیں، وہ اپنا مفہوم پوری قطعیت کے ساتھ واضح کرتے ہیں، اس میں کسی ریب و گمان کے لیے ہر گز کوئی گنجایش نہیں ہوتی۔ ‘‘[1] اس ساری دراز نفسی اور الفاظ کی میناکاری کا مقصد بھی حدیثِ رسول سے قرآن کے عموم کی تخصیص کا حق سلب کرنا ہے، کیوں کہ اس گروہ کے نزدیک نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا رجم کا حکم قرآن کے خلاف ہے۔ اگر موصوف یہ بات سیدھے سادے الفاظ میں کہتے تو اس کی پذیرائی نہ ہوتی، اس لیے موصوف نے ایک ماہر فن کار کی طرح نہایت چابک دستی سے حدِ رجم کے انکار کے لیے الفاظ کے طوطا مینا اس طرح اُڑائے ہیں کہ ایک عام آدمی عبارت آرائی کے حسن اور الفاظ کی جادوگری سے مسحور ہوجائے اور اس کے پسِ پردہ شعبدہ بازی تک اس کی رسائی ہی نہ ہوسکے۔ لیکن تاڑنے والے بھی قیامت کی نظر رکھتے ہیں۔ الحمد ﷲ ہم نے اﷲ کی دی ہوئی بصیرت سے دونوں پیروں میں انکارِ حدیث کا جو جرثومہ چھپا ہوا تھا، دریافت کر لیا۔ واقعہ یہ ہے کہ دونوں پیرے بظاہر قرآن کی عظمت کے مظہر ہیں، لیکن درحقیقت اس میں حاملِ قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کے اس منصبِ رسالت کا انکار ہے، جو اﷲ نے تبیینِ قرآنی کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمایا ہے، جس کی رُو سے قرآن میں بیان کردہ حدِ رجم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنواروں کے لیے مخصوص قرار دیا اور شادی شدہ زانیوں کے لیے حدِ رجم کا حکماً بھی اثبات فرمایا اور عملاً اس کو نافذ بھی فرمایا۔ اسی طرح دیگر کئی عمومات میں آپ نے تخصیص فرمائی اور پوری امت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس منصبِ قرآنی کے تحت آپ کی تمام تخصیصات کو قبول کیا، انھیں نہ قرآن کے خلاف سمجھا اور نہ قرآن سے تجاوز۔ بھلا ایک پیغمبر کلامِ الٰہی میں اس طرح کا تصرف کس طرح کر سکتا
[1] میزان:ص: ۲۵