کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 249
ملاحظہ فرمائیے! بظاہر قرآن کی عظمت کا کیسا وجد آفرین بیان ہے کہ پڑھ کر ایک مسلمان جھوم جھوم اُٹھتا ہے، لیکن اس قند میں چھپی سَمّیت (زہر ناکی) دیکھیے کہ اس میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُس منصبِ رسالت پر نقب زنی ہے جس کی رو سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے بہت سے عموم میں تخصیص کی ہے، جس کی مثالیں ہم مضمون کے آغاز میں بیان کر چکے ہیں اور جن کو تمام صحابہ و تابعین سمیت پوری امت کے ائمہ اعلام، محدثینِ عظام اور فقہائے کرام نے تسلیم کیا ہے اور وہ تخصیصات چودہ سو سال سے مسلّم چلی آرہی ہیں۔ موصوف نے ان سب پر نفی کا تیشہ چلا دیا ہے اور اُن کو بیک بینی و دوگوش دین سے خارج کر دیا ہے۔ دوسرے، ستم بالائے ستم، نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تبیینِ قرآنی کو ’’ترمیم و تغیر ‘‘ قرار دے رہے ہیں، تاکہ یہ جرعۂ تلخ ہر مسلمان گوارا کر لے کہ ہاں واقعی قرآن میں ترمیم و تغیر کا حق تو کسی کو نہیں ہے، لیکن اصل سوال تو یہ ہے کہ پیغمبر کی یہ قرآنی تبیین کیا یہ قرآن میں تغیر و ترمیم ہے؟ یہ موصوف کی سراسر تلبیس کاری و فن کاری ہے۔ پیغمبرِ اسلام کی تبیینِ قرآنی یا بالفاظِ دیگر، قرآنی عموم کی تخصیص، قرآن میں تغیر و تبدل یا ترمیم و تنسیخ نہیں ہے، بلکہ یہ آپ کا وہ منصب ہے، جو اﷲ نے آپ کو دیا اور آپ نے اس کے مطابق یہ تخصیصات کیں۔ ان کو قرآن میں ’’ترمیم و تغیر ‘‘ کہنا عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا اور سراسر فریب ہے ع دیتے ہیں دھو کا یہ بازی گر کھلا علاوہ ازیں اس اقتباس میں وحیِ خفی کا بھی انکار ہے، جس کی روشنی ہی میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے اجمالات کی تفصیل اور عمومات کی تخصیص کی ہے۔ ورنہ اس کے بغیر تو قرآن ایک چیستاں، ناقابلِ عمل اور لا ینحل معما بنا رہتا۔ نماز، زکات، حج و عمرہ وغیرہ بیسیوں احکام ہیں، جن کا حکم قرآن میں ہے۔ ان کی جو تفصیل اور شکل و ہیئت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے اور جن پر چودہ سو سال سے امت عمل پیرا ہے، اس کی بنیاد وحی جلی (قرآن) کے علاوہ اس وحیِ خفی ہی پر ہے۔ اگر اس وحیِ خفی کی کوئی حقیقت نہیں ہے تو آپ کی شرح و تفصیل کی بنیاد کیا ہے؟ اور یہ شرح و تفصیل اگر نہ ہو تو قرآنی احکامات پر کس طرح عمل کیا جائے گا؟ اگر کہا جائے کہ امت کا تواتر عملی، قرآن پر عمل کے لیے کافی ہے، پیغمبر کی شرح و تفصیل ضروری نہیں تو اس سے زیادہ غیر معقول کوئی بات نہیں۔ آخر تواتر کی بنیاد کیا ہوگی؟ اولین دور کے مسلمانوں کا عمل ہی بنیاد ہوگی اور