کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 248
اسوۂ حسنہ ہمارے لیے قابلِ عمل چیز نہیں ہے۔ کوئی عمل کر لے تو اچھا ہے، ورنہ کوئی ضروری نہیں، وہ قرآن کا حدیث کی تفہیم و تبیین کو چھوڑ کر کوئی اور مفہوم بھی اَخذ کر سکتا ہے، اسی طرح پیغمبر کے اسوۂ حسنہ سے مختلف دوسرا طریقہ بھی اپنا سکتا ہے، جیسے انھوں نے نماز کے قعدے اور تشہد کے بارے میں کہا ہے کہ اس میں صرف دو زانو ہو کر بیٹھنا ضروری ہے، درود اور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بتلائی ہوئی دعائیں ضروری نہیں، وہ ان کے بجائے جو چاہے پڑھ سکتا ہے! علاوہ ازیں ’’دین ‘‘ سے مراد بھی قرآن و حدیث والا اسلام نہیں ہے، جسے سارے مسلمان مانتے ہیں، بلکہ دینِ غامدی ہے، جو قرآن اور دینِ ابراہیمی کی ان 27 مزعومہ سنتوں میں محصور ہے، جو غامدی صاحب کی نو دریافت ہیں، جیسا کہ اس سے پہلے بھی ہم نے اس کی وضاحت کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ دین اور حدیث کے بارے میں ائمہ سلف کا یہی عقیدہ و نظریہ ہے، جس کا اظہار غامدی صاحب نے کیا ہے؟ بظاہر قرآن کی ’’عظمت ‘‘ کا اظہار اور بباطن احادیث کا انکار: ایک دوسرے مقام پر دیکھیے کہ غامدی صاحب نے کس زیر کی و فن کاری سے احادیث کو کنڈم کیا ہے کہ لوگ ان کے عظمتِ قرآن کے راگ میں کھو جائیں اور احادیث کو تبیینِ قرآنی سے خارج کرنے کی زہر ناکی کو سمجھ ہی نہ سکیں۔ ملاحظہ ہو: یہ سادگی و پُرکاری! ’’قرآن سے باہر کوئی وحی خفی یا جلی، یہاں تک کہ خدا کا وہ پیغمبر بھی جس پر یہ نازل ہوا ہے، اس کے کسی حکم کی تحدید و تخصیص یا اس میں کوئی ترمیم و تغیر نہیں کر سکتا۔ دین میں ہر چیز کے ردّ و قبول کا فیصلہ اس کی آیاتِ بینات ہی کی روشنی میں ہوگا۔ ایمان و عقیدہ کی ہر بحث اس سے شروع ہوگی اور اسی پر ختم کر دی جائے گی۔ ہر وحی، ہر الہام، ہر القا، ہر تحقیق اور ہر رائے کو اس کے تابع قرار دیا جائے گا اور اس کے بارے میں یہ حقیقت تسلیم کی جائے گی کہ ابو حنیفہ، شافعی، بخاری و مسلم، اشعری و ماتریدی اور جنید و شبلی، سب پر اس کی حکومت قائم ہے اور اس کے خلاف ان میں سے کسی کی کوئی چیز بھی قبول نہیں کی جا سکتی۔ ‘‘[1]
[1] میزان:ص: ۲۵