کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 246
ہمارے دین کا ماخذ ہیں، ہمارے پیغمبر کے اقوال، افعال اور تقریرات کا وہ مجموعہ ہیں، ان میں درج تمام صحیح احادیث دین ہیں، اس لیے کہ وہ قرآن ہی کا بیان اور ان کی تشریح و توضیح ہے۔
دینِ غامدی، احادیثِ مصطفی نہیں ہے، دینِ ابراہیمی کی روایات ہیں، جن کا کوئی ماخذ و مصدر نہیں۔ یا قرآن کی وہ من مانی تاویل ہے جو سراسر تحریفِ معنوی پر مشتمل ہے۔ ان کا دین صحابۂ کرام اور اُمت کا قرآن نہیں ہے۔ یہ قرآن ہمارا ہے، جس کے اجمال کی تفصیل اور عموم کی تخصیص ہمارے پیغمبر نے کی ہے۔ دینِ غامدی اس قرآن کی تشریح و توضیح کا حق پیغمبرِ اسلام کو نہیں دیتا، اس لیے اس قرآن سے اور اس کے اس پیغمبر سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ گو وہ اس قرآن کو ماننے کا کتنی بھی بلند آہنگی سے اقرار کرے، وہ اسی طرح مردود ہے، جیسے مرزائیوں کا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے ماننے کا دعویٰ مردود ہے۔ اس مردودیت کی دلیل ان دونوں کا رویہ اور طرزِ عمل ہے نہ کہ ان کا دعویٰ، کیوں کہ دعوے اور طرزِ عمل میں فرق ہے، دونوں میں مطابقت اور موافقت نہیں، اس لیے فیصلہ طرزِ عمل اور رویے پر ہوگا نہ کہ صرف دعوے پر!
جن لوگوں میں منافقت ہوتی ہے یا جراَت کا فقدان ہوتا ہے، وہ زبان سے جو کہتے ہیں، وہ ان کے دل میں نہیں ہوتا اور جو دل میں ہوتا ہے، اس کا اظہار وہ بوجوہ زبان سے نہیں کرتے۔ تاہم ان کا رویہ ان کے دلوں کی کیفیت کی غمازی کرتا ہے۔ یہ دعوائے غیب دانی نہیں، نہ اس کے لیے علمِ نجوم میں کسی مہارت کی ضرورت ہے۔ ایسے لوگوں کے رویوں سے ان کے نہاں خانۂ دل کی کثافتیں چھن چھن کر باہر آرہی ہوتی ہیں، جو ان کے مخفی عزائم کو آشکارا اور اہلِ دانش و بینش پر ان کی اصل حقیقت کو واضح کر دیتی ہیں۔
بہر رنگے کہ خواہی جامہ می پوش
من اندازِ قدت را می شناسم
احادیث کی حجیت کا واشگاف الفاظ میں انکار:
اپنی مزعومہ سنتوں کے بیان کے بعد غامدی صاحب واشگاف الفاظ میں، لگی لپٹی رکھے بغیر، فرماتے ہیں:
’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کے اخبارِ آحاد جنھیں بالعموم ’’حدیث ‘‘ کہا جاتا ہے، ان کے بارے میں ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ان سے جو علم حاصل ہوتا ہے، وہ کبھی درجۂ یقین کو نہیں پہنچتا، اس