کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 244
ہے، ان کے علاوہ کوئی چیز دین ہے نہ اسے دین قرار دیا جا سکتا ہے۔ ‘‘[1] غامدی صاحب سے ہمارا سوال ہے کہ سنت کی یہ تعریف اور اس کی یہ تحدید ائمہ سلف میں سے کس نے کی ہے؟ کیوں کہ آپ کا دعویٰ ہے کہ ائمہ سلف میں اور آپ کے درمیان بال برابر بھی فرق نہیں ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ مذکورہ سنتیں قرآن کی طرح عملی تواتر سے ملی ہیں تو پھر ان میں باہم اختلاف کیوں ہے؟ صرف نماز کا اختلاف ہی دیکھ لیجیے! ہاتھ باندھنے کی صورت میں: سینے پر باندھے جائیں یا ناف کے نیچے، یا ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھی جائے؟ رفع الیدین کیا جائے یا نہ کیا جائے؟ اعتدالِ ارکان ضروری ہے یا نہیں؟ کسی کے نزدیک ضروری ہے، کسی کے نزدیک نہیں۔ خلف الامام سورت فاتحہ پڑھنی ہے یا نہیں؟ ایک کے نزدیک فرض ہے، جب کہ دوسروں کے نزدیک غیر ضروری۔ اسی طرح مرد اور عورت کی نماز کا مسئلہ ہے۔ ایک فریق ان کے طریقۂ نماز میں فرق کا قائل ہے، جب کہ دوسرا فریق سوائے دو تین باتوں کے، ارکانِ نماز ادا کرنے میں کسی فرق کا قائل نہیں۔ ان اختلافات کی ایک وجہ تو دلائل کی صحت و ضعف میں اختلاف ہے، دوسری وجہ فہم و تعبیر کا اختلاف، اور ایک وجہ فقہی و حزبی جمود یا قرآن کے الفاظ میں﴿بَغْیًام بَیْنَھُمْ﴾ بھی ہے۔ اگر نماز کا اثبات صرف عملی تواتر سے ہوتا تو طریقۂ نماز میں یہ اختلاف قطعاً نہیں ہوتا، فریقین دلائل کا انبار اور کتابوں کا ڈھیر جمع نہ کرتے۔ پھر تو ان کی صرف ایک ہی دلیل ہوتی کہ نماز کا فلاں عمل یا فلاں طریقہ نسل در نسل، جیلاً بعد جیلٍ، اسی طرح تواتر سے نقل ہوتا آرہا ہے، لیکن یہ دلیل آج تک کسی فریق نے پیش نہیں کی۔ سارا اختلاف ان دلائل کی بنیاد پر ہے، جو کتابوں میں موجود ہیں، ان دلائل کی صحت و ضعف پر بحثیں ہوتی ہیں، ان کے انطباق پر گفتگو ہوتی ہے، وجوب و استحباب یا افضلیت و غیر افضلیت زیرِ بحث آتی ہیں، لیکن کہیں بھی اور کسی کی بھی طرف سے عملی تواتر کا حوالہ سامنے نہیں آتا۔ ایسا کیوں ہے؟ اس لیے کہ عملی تواتر کا وجود عنقا کی طرح ہے، جس کا وجود ہی ناپید ہے۔ اسی طرح عملی تواتر بھی ناپید ہے۔ اسی طرح غامدی صاحب کا اپنی مزعومہ ’’سنتوں ‘‘ کے بارے میں یہ کہنا کہ ’’ثبوت کے اعتبار سے ان میں
[1] میزان :ص، ۱۴۔ ۱۵