کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 243
(المائدۃ: 3) کے ترجمے کے، سب وہ احکام ہیں جو احادیث کی کتابوں میں درج ہے، حالاں کہ یہ کتابیں ان کے نزدیک غیر معتبر ہیں، علاوہ ازیں احادیث کی ان کتابوں میں یہ سارے احکام رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان فرمودہ ہیں۔ ان میں سے کسی ایک حکم کی بابت بھی یہ وضاحت نہیں ہے کہ یہ دینِ ابراہیمی کی وہ روایات ہیں، جن میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصلاح و تجدید یا اضافہ کر کے دین کے طور پر جاری فرمائی ہیں۔ آخر اس دعوے کی دلیل سوائے ایک شخص کی ذہنی اپج یا دماغی اختراع کے کیا ہے؟
ان میں سے بیشتر احکام تو وہ ہیں، جو ہر نبی کی شریعت میں رہے ہیں، جس کی صراحت خود قرآن میں موجود ہے:
﴿شَرَعَ لَکُمَ مِّنْ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَا اِِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖٓ اِِبْرٰھِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰٓی اَنْ اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ﴾(الشوریٰ: 13)
’’تمھارے لیے وہی دین اﷲ نے مقرر کیا ہے، جس کا حکم اس نے نوح کو دیا اور وہ جس کی وحی ہم نے آپ کی طرف کی اور وہ جس کا حکم ہم نے ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا کہ تم دین کو قائم کرو۔ ‘‘
اس آیت سے واضح ہوا کہ چند جزوی مسائل کے علاوہ تمام انبیا کا دین ایک ہی رہا ہے اور وہ ’’الاسلام ‘‘ ہی ہے تو کیا مذکورہ احکام دیگر انبیا کے دین میں نہیں رہے ہوں گے؟ ان سنتوں کا آغاز تو پھر حضرت نوح سے یا حضرت آدم سے کرنا چاہیے، قربانی اور تدفین وغیرہ کا ذکر تو حضرت آدم سے بھی ملتا ہے۔ پھر ان احکام کو دینِ ابراہیمی کی روایات کیوں کر کہا جا سکتا ہے؟
ان سب سوالات کا جواب غامدی صاحب کے ذمے ہے۔
غامدی صاحب کی مزید وضاحت اور ہمارے مزید سوالات:
مذکورہ فہرستِ سنن کے بعد غامدی صاحب فرماتے ہیں:
’’سنت یہی ہے اور اس کے بارے میں یہ بالکل قطعی ہے کہ ثبوت کے اعتبار سے اس میں اور قرآن مجید میں کوئی فرق نہیں ہے، وہ جس طرح صحابہ کے اجماع اور قولی تواتر سے ملا ہے، یہ اسی طرح ان کے اجماع اور عملی تواتر سے ملی ہے اور قرآن ہی کی طرح ہر دور میں مسلمانوں کے اجماع سے ثابت قرار پائی ہے، لہٰذا اس کے بارے میں اب کسی بحث و نزاع کے لیے گنجایش نہیں ہے۔ دین لاریب، انھی دو صورتوں میں