کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 240
مِنْ اَفْوَاھِھِمْ اِنْ یَّقُوْلُوْنَ اِلَّا کَذِبًا﴾(الکھف: 5) اہلِ اسلام کے نزدیک حدیث و سنت کا مفہوم اور غامدی صاحب کا مفہوم: غامدی صاحب کے اندر اس شوخ چشمانہ جسارت کا حوصلہ کیوں پیدا ہوا؟ اس لیے کہ وہ آپ کے طریقے اور عمل کو ’’سنت ‘‘ سمجھنے کے لیے تیار نہیں، چناں چہ ان کے ٹیپ کا بند ملاحظہ فرمائیں: ’’لہٰذا سنت صرف یہی ہے کہ ہر نماز کی دوسری اور آخری رکعت میں نماز پڑھنے والا دو زانو ہو کر قعدے کے لیے بیٹھے، اس کے علاوہ کوئی چیز بھی اس موقع پر سنت کی حیثیت سے مقرر نہیں کی گئی۔ ‘‘ ہم نے الحمد ﷲ مکمل اقتباس دے کر اس کے مختلف ٹکڑوں کی وضاحت کی ہے، اس میں کمی بیشی نہیں کی ہے، تاکہ ان کا حلقۂ ارادت یا وہ خود یہ نہ کہہ سکیں کہ سیاق و سباق کو حذف کر کے ان کے مفہوم یا الفاظ کو غلط رنگ میں پیش کیا گیا ہے۔ ہم نے ایسا کیا ہے نہ ہم ایسا کرنا جائز ہی سمجھتے ہیں۔ یہ علمی بددیانتی ہے، جو اہلِ علم کے شایان نہیں، بلکہ ہم تو یہاں تک کہتے ہیں کہ غامدی صاحب یا ان کے ’’استاذ امام ‘‘ کے ’’منصوص کلمات ‘‘ کی شرح و توضیح میں بھی کوئی تجاوز ایسا ہوا ہو کہ بات ’’ توجیہ القول بما لا یرضیٰ بہ القائل ‘‘ کے درجے تک پہنچ گئی ہو تو ہمیں ان شاء اﷲ اس پر بھی معذرت کرنے میں کوئی تأمل نہیں ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ استاذ اور شاگرد؛ ان دونوں حضرات نے اپنی گمراہی کا اظہار اور سلف کی راہِ ہدایت سے ہٹ کر زیغ و ضلال کی راہ نوردی اتنے واشگاف الفاظ میں اور اتنی بے باکی اور بلند آہنگی سے کی ہے کہ ان کی عبارتوں کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے، وہ اپنے مفہوم میں بالکل واضح ہیں اور چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ ہمارا نظریہ حدیث و سنت وہ نہیں ہے جو چودہ سو سال سے اُمتِ مسلمہ میں مسلّمہ چلا آرہا ہے، بلکہ امت کے ائمہ سلف، علما و فقہا اور محدثین کو حدیث و سنت کا نہ مفہوم سمجھ میں آیا ہے اور نہ وہ ان کے مقام و مرتبے ہی کو پہچان سکے ہیں، بلکہ چودہ سو سال کے بعد یہ ’’سعادت ‘‘ تو امامِ اول فراہی صاحب کو، دوسرے نمبر پر ’’امامِ ثانی ‘‘ اصلاحی صاحب کو اور ’’امامِ ثالث ‘‘ غامدی صاحب اور اُن کے ہمنواؤں کو حاصل ہوئی ہے ع یہ نصیب اﷲ اکبر لوٹنے کی جائے ہے! اور حدیث کا وہ مقام جو ان کی سمجھ میں آیا ہے کہ یہ باسند سلسلۂ روایات غیر معتبر اور ثانوی اہمیت کا حامل ہے