کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 238
پیغمبر کی راہنمائی اور عمل، سنت ہے نہ کوئی قابلِ عمل چیز۔ ۔ ۔ ، غامدی ذہن کی فلسفیانہ اُبکائی: لیکن یہ گروہ بظاہر ’’سنت ‘‘ کی ’’اہمیت ‘‘ کا قائل ہے، لیکن سنت کے بارے میں بھی ذرا ان کا موقف ملاحظہ ہو: ”دوسرا اصول یہ ہے کہ سنت کا تعلق تمام تر عملی زندگی سے ہے، یعنی وہ چیزیں جو کرنے کی ہیں۔ علم و عقیدہ، تاریخ، شانِ نزول اور اس طرح کی دوسری چیزوں کا سنت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سنت کا لفظ ہی اس سے ابا کرتا ہے کہ ایمانیات کی قسم کی کسی چیز پر اس کا اطلاق کیا جائے۔ لہٰذا علمی نوعیت کی کوئی چیز بھی سنت نہیں ہے، اس کا دائرہ کرنے کے کام ہیں، اس دائرے سے باہر کی چیزیں اس میں کسی طرح شامل نہیں کی جا سکتیں۔ ‘‘[1] آگے سنیے! آگے چل کر سنت کا تعلق، عملی زندگی سے بھی ختم، پہلے اس کا دائرہ کرنے کے کام تک محدود بتلایا، اب اس کا بھی انکار۔ ملاحظہ فرمائیے: ’’وہ چیزیں بھی سنت نہیں ہوسکتیں، جو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی راہنمائی کے لیے انھیں بتائی تو ہیں، لیکن اس راہنمائی کی نوعیت ہی پوری قطعیت کے ساتھ واضح کر دیتی ہے کہ انھیں سنت کے طور پر جاری کرنا آپ کے پیشِ نظر ہی نہیں ہے۔ اس کی ایک مثال نماز میں قعدے کے اذکار ہیں۔ ”روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے لوگوں کو تشہد اور درود بھی سکھایا ہے اور اس موقع پر کرنے کے لیے دعاؤں کی تعلیم بھی دی ہے، لیکن یہی روایتیں واضح کر دیتی ہیں کہ ان میں سے کوئی چیز بھی نہ آپ نے بطورِ خود اس موقع کے لیے مقرر کی ہے اور نہ سکھانے کے بعد لوگوں کے لیے اسے پڑھنا لازم قرار دیا ہے۔ ’’یہ پسندیدہ اذکار ہیں اور ان سے بہتر کوئی چیز تصور نہیں کی جا سکتی، لیکن اس معاملے میں آپ کا طرزِ عمل صاف بتاتا ہے کہ آپ لوگوں کو کسی بات کا پابند نہیں کرنا چاہتے، بلکہ انھیں یہ اختیار دینا چاہتے ہیں کہ وہ آپ کی سکھائی ہوئی یہ دعائیں بھی کر سکتے ہیں اور ان کی جگہ دعا و مناجات کے لیے کوئی اور طریقہ بھی اپنا سکتے ہیں۔ لہٰذا سنت صرف یہی ہے کہ ہر نماز کی دوسری اور آخری رکعت میں نماز پڑھنے والا دو زانو ہو کر
[1] میزان، ص: ۵۸