کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 237
ظاہر بات ہے جب حدیث سے کسی عقیدہ و عمل کا اضافہ نہیں ہوتا اور وہ دین میں کسی نئے حکم کا ماخذ نہیں بن سکتی تو پھر حدیثِ رسول کی کیا اہمیت باقی رہ جاتی ہے؟ 4۔ علاوہ ازیں ’’نئے حکم ‘‘ کا کیا مطلب؟ یہ ان کے اسی گمراہ کن نظریے کا غماز ہے کہ حدیثِ رسول سے قرآن کے عموم کی تخصیص نہیں ہوسکتی، جب کہ ائمہ سلف، محدثین، فقہائے اُمت؛ سب حدیثِ رسول کو قرآن کا مخصص، یعنی دینی حکم تسلیم کرتے ہیں، لیکن یہ صاحب اس تخصیص کو قرآن میں تغیر و تبدل سے تعبیر کر کے بظاہر قرآن کی عظمت کا اظہار کرتے ہیں، لیکن درحقیقت قرآن کے بیان کردہ منصبِ رسالت (مُبَیِّن) کا انکار کر کے قرآن کا انکار کرتے ہیں۔ ہمارا اس گروہ سے سوال ہے کہ ائمہ سلف نے قرآن کے عموم میں تخصیص کو تخصیص ہی کہا ہے یا بعض نے اس کے لیے نسخ کا لفظ استعمال کیا ہے، لیکن مراد ان کی بھی اس لفظ سے اصطلاحی نسخ نہیں، بلکہ تخصیص ہی ہے، لیکن کیا ائمہ سلف میں سے کسی امام، محدث اور فقیہ نے یہ کہا ہے کہ یہ نیا حکم ہے جو قرآن سے الگ یا زائد علی القرآن یا قرآن میں تغیر و تبدل ہے؟ لیکن غامدی صاحب کے نزدیک یہ تخصیص، قرآن میں تغیر و تبدل ہے، جس کا حق رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نہیں ہے۔ [1] 5۔ علاوہ ازیں یہ گروہ ’’سنت، سنت ‘‘ کی بڑی رٹ لگاتا ہے، جس سے اس کا مقصود یہ تاثر دینا ہوتا ہے کہ حدیث گو ان کے نزدیک غیر معتبر ہے، لیکن سنت کی ان کے ہاں بڑی اہمیت ہے، لیکن اول تو حدیث و سنت میں یہ فرق ہی خانہ ساز ہے، کسی امام، محدث یا فقیہ نے ایسا نہیں کہا ہے۔ ان کے نزدیک حدیث اور سنت مترادف اور ہم معنی ہے، جو چیز رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، عمل اور تقریر سے ثابت ہے، وہ دین میں حجتِ قاطع ہے، اسے حدیث کہہ لیں یا سنت، یہ ایک ہی بات اور ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں۔
[1] برہان:ص: ۵۶، طبع پنجم، فروری ۲۰۰۸ء۔