کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 236
اس میں فلاں فلاں ’’تجدید و اصلاح ‘‘ یا اضافہ فرمایا۔ جب تک ان دو چیزوں کی وضاحت نہیں ہوگی، اسے ’’دین کی حیثیت ‘‘ کس طرح دی جا سکتی ہے؟ دین تو وہ ہے جس کے دلائل کا تحریری ثبوت ہو۔ وہ تو دین نہیں ہوسکتا، جو صرف کسی ایک شخص کے ذہن میں ہو یا وہ اپنی ذ ہنی اختراع نکال کر کاغذ پر پھیلا دے۔
دینِ اسلام کا تحریری ثبوت قرآن اور احادیث میں موجود ہے۔ احادیث تو غامدی صاحب کے نزدیک غیر معتبر اور دفترِ بے معنی ہے۔ ہاں عرب کا بے سند جاہلی کلام ان کے نزدیک نہایت معتبر ہے۔ قرآن کے ماننے کے بھی وہ دعوے دار ہیں۔ ہمارے سوال کا جواب وہ قرآن کریم یا شعرائے عرب کے جاہلی کلام سے یا چلو تاریخ کی کسی کتاب ہی سے دے دیں۔
3۔ اگر ان کے اور ائمۂ سلف کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے تو وہ واضح کریں کہ انھوں نے بھی حدیث اور سنت کے درمیان فرق کیا ہے؟ یہ فرق سلف نے کہاں بیان کیا ہے؟
ائمۂ سلف میں کس نے کہا ہے کہ ’’حدیث سے عقیدہ و عمل کا اثبات نہیں ہوتا ‘‘۔ ان کے الفاظ ہیں:
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کی روایتیں جو زیادہ تر اخبارِ آحاد کے طریقے پر نقل ہوئی ہیں اور جنھیں اصطلاح میں حدیث کہا جاتا ہے، ان کے بارے میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ ان سے دین میں کسی عقیدہ و عمل کا کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ ۔ ۔ یہ چیز حدیث کے دائرے ہی میں نہیں آتی کہ وہ دین میں کسی نئے حکم کا ماخذ بن سکے۔ ‘‘[1]
غامدی صاحب یا ان کے حواری بتلائیں کہ حدیث کے بارے میں یہ موقف ائمہ سلف میں سے کس کا یا کس کس کا ہے؟ خیال رہے کہ خبرِ آحاد کے بارے میں بعض فقہا نے کچھ تحفظات کا اظہار کیا ہے، لیکن اس وقت یہاں اس بحث کی گنجایش نہیں۔ غامدی صاحب نے تو یہاں اس اصطلاح کا استعمال غالباً اسی ذہنی تحفظ کے تحت کیا ہے کہ اس کی آڑ میں شاید کچھ فقہا کے حوالے پیش کیے جا سکتے ہیں، لیکن مسئلہ تو ائمہ سلف کا ہے، جو لفظ غامدی صاحب نے استعمال کیا ہے۔ ائمہ سلف میں کس نے حدیث کی بابت یہ خامہ فرسائی کی ہے، جس سے دین میں حدیث کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی؟
[1] میزان، ص: ۶۱