کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 235
اسی طرح غامدی و اصلاحی اور فراہی کا حدیث و سنت کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ ان کو مانتے ہیں، لیکن ان کے اُس اصطلاحی مفہوم کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں جو چودہ سو سال سے حدیث و سنت کی اصطلاح کا مفہوم مسلّم چلا آرہا ہے۔ چودہ سو سالہ مسلّمہ اصطلاحات کا ایک نیا مفہوم گھڑ کر کہتے ہیں کہ میں ’’حدیث و سنت ‘‘ کو مانتا ہوں۔ یہ کس طرح صحیح ہو سکتا ہے اور کس طرح یہ تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ وہ واقعی حدیث و سنت کو ماننے والے ہیں؟ اس لیے سب سے پہلے یہ اعتراف کر لینا چاہیے کہ وہ حدیث و سنت کے منکر ہیں اور غامدی صاحب کا یہ دعویٰ کہ میرے اور علما کے درمیان: ’’محض اصطلاحات کا اختلاف ہے، ورنہ حقیقت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو میرے اور ائمہ سلف کے موقف میں سرمو فرق نہیں ہے۔ ‘‘[1] یہ سراسر جھوٹ ہے، بلکہ اس صدی کا سب سے بڑا جھوٹ اور اپنے کامل معنوں میں فراڈ ہے۔ اگر وہ اپنے اس دعوے میں سچے ہیں تو وہ بتلائیں کہ ’’سنت ‘‘ کی یہ تعریف جو انھوں نے کی ہے: ’’سنت سے ہماری مراد دینِ ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تجدید و اصلاح کے بعد اور اس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے۔ ‘‘[2] 1۔ اس میں پہلا سوال تو یہ ہے کہ ’’سنت ‘‘ کا یہ مفہوم غامدی صاحب سے پہلے کسی نے بیان کیا ہے؟ اگر کیا ہے تو ثابت کریں اور اگر نہیں کیا ہے تو اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ وہ سنت کے منکر ہیں۔ جب تک وہ سنت کے چودہ سو سالہ مسلّمہ مفہوم کے مطابق سنت کو تسلیم نہیں کریں گے، وہ سنت کو ماننے کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔ اگر کرتے ہیں تو ان کا یہ دعویٰ جھوٹ ہی نہیں ہے، بلکہ سراسر دجل و فریب کا مظاہرہ ہے۔ 2۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ دین ِ ابراہیمی کی وہ اصل روایت کیا ہے، جس میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجدید و اصلاح کی اور اس میں ’’بعض اضافے ‘‘ بھی فرمائے؟ پہلے دینِ ابراہیمی کی اصل روایت سامنے آنی چاہیے کہ وہ کیا تھی؟ پھر بتلایا جائے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے
[1] الشریعہ:اپریل ۲۰۰۹ء [2] میزان، ص: ۱۴، طبع سوم، ۲۰۰۸ء۔