کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 234
حد تک حرزِ جان بنا رکھا ہے۔ علاوہ ازیں ان کو حمید الدین فراہی کا سب سے زیادہ ہونہار شاگرد اور اُن کے افکار کا سب سے بڑا شارح سمجھا جاتا ہے۔
غامدی گروہ کہلانے کی وجہ، غامدی صاحب کا مولانا اصلاحی سے شرفِ تلمذ اور ان کے گمراہ کن نظریات کی اندھی تقلید، بلکہ ان کے ردّے پر مزید ردّے چڑھا کر ان کی کجی اور گمراہی کو فلک چہارم تک پہنچانے کا عظیم کارنامہ سر انجام دینا ہے۔ ع
ایں کار از تو آید و مرداں چنیں کنند
اور عمار گروہ کہلانے کی وجہ بھی یہی بنے گی کہ ایک تو وہ بھی ان کی شاگردی کے سلسلۃ الضلال سے نہ صرف منسلک ہیں، بلکہ اس پر ان کو فخر ہے۔ دوسرے وہ بھی اسی راہ کے راہرو ہیں، جو غامدی صاحب نے اپنائی ہوئی ہے اور یہ وہ راہ ہے جس کے بارے میں ہم پورے یقین و اذعان سے کہتے ہیں ؎
ترسم نہ رسی بکعبہ اے اعرابی
ایں راہ کہ تو می روی بہ ترکستان است
حاملینِ فکرِ فراہی اور غامدی سے پانچ سوال:
بہر حال ہم اب اصل موضوع، غامدی صاحب کے تصورِ حدیث و سنت پر گفتگو کرتے ہیں۔ ہم پہلے وضاحت کر آئے ہیں کہ اصطلاحات ہر شخص کی اپنی اپنی نہیں ہوتیں، بلکہ ایک خاص عقیدہ و ایمان رکھنے والے گروہ کی ہوتی ہیں۔ اہلِ رفض و تشیع کی ایک اصطلاح ’’امامت ‘‘ ہے۔ کوئی شخص یہ کہے کہ میرے نزدیک اس کا مطلب دو رکعت نماز کی امامت ہے۔ کوئی شیعہ اس شخص کی اس رائے کو تسلیم نہیں کرے گا، حالاں کہ یہ لفظ ہمارے ہاں اس معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، لیکن اس کا عقیدۂ امامت سے کوئی تعلق نہیں ہے، کیوں کہ وہ ایک گروہ کی خاص اصطلاح ہے۔
ختمِ نبوت، اہلِ سنت کی ایک اصطلاح ہے، جس کا مفہوم واضح ہے، لیکن ایک گروہ دعویٰ کرتا ہے کہ ہم بھی ختمِ نبوت کے قائل ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ اِجرائے نبوت کے بھی قائل ہیں۔ کون مسلمان ہے، جو یہ تسلیم کرے گا کہ مرزائی واقعی ختمِ نبوت کے قائل ہیں؟