کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 233
حدیثِ رسول کی حجیت کا مخالف ہے اور صرف قرآنِ کریم کی پیروی کے نام پر مغربی اَفکار و تہذیب کو فروغ دینا چاہتا ہے۔ پچھلے مختلف اَدوار میں بھی اگرچہ انکارِ حدیث کا یہ فتنہ کسی نہ کسی انداز سے رہا ہے، لیکن جو عروج اسے اس زمانے میں حاصل ہوا ہے، اس سے پیشتر کبھی نہ ہوا اور جو منظم سازش اس وقت اس کے پیچھے کار فرما ہے، پہلے کبھی نہ تھی۔ اسلام کی ابتدائی دو صدیوں کے بعد معتزلہ نے بعض احادیث کا انکار کیا، لیکن اس سے ان کا مقصود اپنے گمراہ کن عقائد و نظریات کا اِثبات تھا۔ اسی طرح گذشتہ ایک ڈیڑھ صدی پہلے نیچر پرستوں نے احادیث کی حجیت میں مین میکھ نکالی، اس سے بھی ان کا مقصود اپنی نیچر پرستی کا اثبات اور معجزاتِ قرآن کی من مانی تاویلات تھا۔ نیچر پرستوں کا یہی گروہ اب ’’مستشرقین ‘‘ اور ’’مستغربین ‘‘ کی ’’تحقیقاتِ نادرہ ‘‘ سے متاثر، ساحرانِ مغرب کے افسوں سے مسحور اور شاہدِ مغرب کی عشوہ طرازیوں سے مرعوب یا اس کے غمزہ و ادا کا قتیل ہو کر ایک منظم طریقے سے قومِ رسول ہاشمی کو ان کی تہذیب و معاشرت سے محروم کرنا اور اسلامی اقدار و روایات سے بیگانہ کر کے تہذیبِ جدید کے سانچے میں ڈھالنا چاہتا ہے۔ لا قدّرہ اللّہ، ثم لا قدّرہ اللّٰہ۔ فراہی، اصلاحی، غامدی گروہ کے گمراہ کن نظریات: احادیث کی حجیت اور تشریعی اہمیت پر ہم نے قدرے تفصیل سے اس لیے روشنی ڈالی ہے کہ اس کے بغیر غامدی، اصلاحی یا فراہی گروہ کے گمراہ کن نظریات کی وضاحت ممکن نہیں تھی۔ خیال رہے کہ اس گروہ کے لیے یہ تینوں لفظ اہلِ علم میں متداول ہیں اور شاید آگے چل کر مستقبل قریب یا بعید میں یہی گروہ عمار گروہ کے نام سے بھی معنون ہوجائے۔ فراہی کی طرف نسبت، مولانا حمید الدین فراہی کی وجہ سے ہے، جنھوں نے سب سے پہلے قرآن کی شرح و تفسیر میں عرب شعرا کے جاہلی کلام کو سب سے زیادہ اہمیت دی، بلکہ احادیث کے مقابلے میں اسی کو بنیاد قرار دیا۔ اسی طرح نظمِ قرآن پر بھی ضرورت سے زیادہ زور دیا۔ علاوہ ازیں احادیث کو مشکوک ٹھہرایا اور اُن کی تشریعی حیثیت سے انکار کیا، اسی بنیاد پر دیگر احادیث کے ساتھ حدِ رجم کا انکار کیا۔ اصلاحی کی نسبت کی وجہ مولانا امین احسن اصلاحی کے افکار و تفردات ہیں، جن کو اس گروہ نے ایمانیات کی