کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 232
اس طرح متعدد قضایا اور واقعات ہیں جن میں اس امر کی صراحت موجود ہے کہ حدیثِ رسول کو بلا تأمل حجتِ شرعیہ سمجھا گیا اور اس کا علم ہوتے ہی بحث و تکرار کی بساط لپیٹ دی گئی۔ عہدِ صحابہ کے بعد تابعین و تبع تابعین اور ائمہ و محدثین کے ادوار میں بھی حدیثِ رسول کی یہ تشریعی حیثیت قابلِ تسلیم رہی، بلکہ کسی دور میں بھی اہلِ سنت و الجماعت کے اندر اس مسئلے میں اختلاف ہی نہیں رہا۔
حدیثِ رسول کی یہی وہ تشریعی اہمیت تھی، جس کے لیے اﷲ تعالیٰ نے تکوینی طور پر محدثین کا ایسا بے مثال گروہ پیدا فرمایا، جس نے حدیثِ رسول کی حفاظت کا ایسا سروسامان کیا کہ انسانی عقلیں ان کاوشوں کو دیکھ کر دنگ رہ گئیں اور محدثین نے حدیث کی تہذیب و تنقیح کے لیے ایسے علوم ایجاد کیے، جومسلمانوں کے لیے سرمایۂ صد افتخار ہیں۔ اگر حدیثِ رسول کی یہ تشریعی اہمیت نہ ہوتی، جس طرح کہ آج کل باور کرایا جا رہا ہے تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ محدثین رحمہم اللہ کو حفاظتِ حدیث کے لیے اتنی عرق ریزی اور جگر کاوی کی پھر ضرورت ہی کیا تھی؟
احادیث کی اتنی اہمیت کیوں ہے؟
واقعہ یہ ہے کہ قرآنِ کریم جس قسم کا انسانی معاشرہ تشکیل دینا چاہتا ہے، جو تہذیب و تمدن انسانوں کے لیے پسند فرماتا ہے اور جن اقدار و روایات کو فروغ دینا چاہتا ہے، اس کے بنیادی اصول ہر چند قرآن کریم میں بیان کر دیے گئے ہیں، تاہم حقیقت یہ ہے کہ اس کی عملی تفصیلات و جزئیات سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے مہیا کی ہیں۔ اس لیے یہ اسوۂ رسول (اسوۂ حسنہ) جو احادیث کی شکل میں محفوظ و مدوّن ہے، ہر دور کے مسلمانوں کے لیے بیش قیمت سرمایہ رہا ہے۔ اسی اتباعِ سنت اور پیرویِ رسول کے جذبے نے مسلمانوں کو ہمیشہ الحاد و زندقہ (بے دینی) سے بچایا ہے، شرک و بدعت کی گرم بازاری کے باوجود توحید و سنت کی مشعلوں کو فروزاں رکھا ہے، مادیت کے جھکڑوں میں روحانیت کے دیے جلائے رکھے ہیں اور یوں شرار بو لہبی پر چراغِ مصطفوی ہمیشہ غالب رہا ہے۔
آج جو لوگ سنتِ رسول کی تشریعی حیثیت کو ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں، وہ دراصل اسی اتباعِ سنت کے جذبے کو نیست و نابود کرنا چاہتے ہیں جو قرآنِ کریم کے بپا کردہ اسلامی معاشرے کی روح اور بنیاد ہے اور جس کے بعد انسانوں کے اس معاشرے کو، جس میں مسلمان بستے ہیں، مغربی تہذیب و تمدن میں ڈھالنا مشکل نہیں ہو گا۔
چنانچہ ہمارے معاشرے کا یہی وہ طبقہ ہے، جو اپنے لبرل نظریات اور اِباحیت پسندانہ رویے کی وجہ سے