کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 231
﴿مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّیْنَۃٍ اَوْ تَرَکْتُمُوْھَا قَآئِمَۃً عَلٰٓی اُصُوْلِھَا فَبِاِِذْنِ اللّٰہِ وَلِیُخْزِیَ الْفٰسِقِیْنَ ’’تم نے جو کھجور کے کچھ درخت کاٹے یا (کچھ کو) ان کی جڑوں پر ہی قائم رہنے دیا، یہ اﷲ کے اذن (حکم) سے ہوا اور تاکہ اﷲ تعالیٰ کافروں کو ذلیل و رسوا کرے۔ ‘‘(الحشر:5) لیکن یہ حکم (اذن) قرآن میں کہاں ہے؟ کہیں نہیں ہے۔ اس سے واضح ہوا کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کریم کے علاوہ بھی وحی آتی رہی ہے اور اس وحیِ خفی کے مطابق بھی آپ نے احکام صادر فرمائے ہیں، جو یقیناً قرآن کے علاوہ ہیں، قرآن میں ان کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ ایسے احکام کو زائد علی القرآن کہہ کر، یا قرآن کے خلاف باور کراکے کیوں کر رد کیا جا سکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایسے فیصلوں اور حکموں کو جو قرآن میں منصوص نہیں ہیں، کتابِ الٰہی کا فیصلہ قرار دیا ہے، جس طرح شادی شدہ زانی کی سزا ’’حدِ رجم ‘‘ ہے، جو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے عموم میں تخصیص کر کے مقرر فرمائی اور اس کو عملی طور پر نافذ بھی فرمایا۔ آپ نے اس حدِّ رجم کو ’’کتاب اﷲ کے مطابق فیصلہ ‘‘ قرار دیا: ’ لَأَقْضِیَنَّ بَیْنَکُمَا بِکِتَابِ اللّٰہِ ’[1] صحابہ نے اپنے اختلافات میں حدیث کو حَکَم قرار دیا: صحابہ کرام کے بابرکت دور کو دیکھ لیجیے، آپ کو نمایاں طور پر یہ چیز ملے گی کہ ان کے مابین مسائل میں اختلاف ہوتا تو حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے معلوم ہوتے ہی وہ اختلاف ختم ہوجاتا اور حدیث کے آگے سب سرِ تسلیم خم کر دیتے۔ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کی تدفین اور آپ کی جانشینی کے مسئلے میں اختلاف ہوا، جب تک ان کی بابت حدیث کا علم نہ ہوا، اس پر گفتگو ہوتی رہی، لیکن جوں ہی حدیث پیش کی گئی، مسئلے حل ہوگئے۔ تدفین کے مسئلے میں بھی اختلاف ختم ہوگیا اور جانشینی جیسا معرکہ آرا مسئلہ بھی پلک جھپکتے حل ہوگیا۔
[1] صحیح البخاري، کتاب الحدود، رقم الحدیث :۶۸۲۸