کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 229
’’اﷲ تعالیٰ گُودنے والیوں اور گُدوانے والیوں پر، چہرے کے بال اُکھاڑنے والیوں اور حسن کے لیے آگے کے دانتوں میں کشادگی کرنے والیوں پر لعنت کرے کہ یہ اﷲ کی پیدا کی ہوئی صورت میں تبدیلی کرنے والی ہیں۔ ‘‘ سیدنا عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اس بات کا علم قبیلۂ بنی اسد کی ایک عورت (اُم یعقوب) کو ہوا تو وہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور آکر کہا: مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ نے اس اس قسم کی عورتوں پر لعنت کی ہے۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’مَالِيْ لَا أَلْعَنُ مَنْ لَعَنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلیاللّٰه علیہ وسلم وَمَنْ ھُوَ فِيْ کِتَابِ اللّٰہِ ’ ’’آخر میں کیوں نہ اُن پر لعنت کروں، جن پر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے اور جو اﷲ کی کتاب (قرآن) کے مطابق بھی ملعون ہیں؟ ‘‘ اس عورت نے کہا: میں نے تو سارا قرآن پڑھا ہے، اس میں تو کہیں بھی (مذکورہ) عورتوں پر لعنت نہیں ہے جس طرح کہ آپ کہتے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’لَئِنْ کُنْتِ قَرَأْتِیْہِ لَقَدْ وَجَدْتِیْہِ، أَمَا قَرَأْتِ:﴿مَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا ’’اگر تونے قرآن کو پڑھا ہوتا تو یقیناً تو وہ بات اس میں پا لیتی۔ کیا تونے قرآن کی یہ آیت نہیں پڑھی؟ رسول تمھیں جو دے، اسے لے لو اور جس سے تمھیں روک دے، اس سے رُک جاؤ۔ ‘‘ عورت نے کہا: کیوں نہیں، یہ آیت تو پڑھی ہے۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تو یقیناً اﷲ کے رسول نے ان سے منع فرمایا ہے۔ [1] اس حدیث میں دیکھ لیجیے! سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو اﷲ کا فرمان اور کتاب اﷲ کا حکم قرار دیا اور جب اس دور کی پڑھی لکھی خاتون کو بھی یہ نکتہ سمجھایا گیا تو اس نے بھی اسے بلا تأمل تسلیم کر لیا۔ اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے نزدیک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ، قرآن ہی
[1] صحیح البخاري، حوالہ مذکور۔