کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 228
سورۃ النور کے آخر میں فرمایا: ﴿فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہٖٓ اَنْ تُصِیْبَھُمْ فِتْنَۃٌ اَوْ یُصِیْبَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ﴾(النور: 63) ’’جو لوگ اس (رسول) کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں، وہ اس بات سے ڈریں کہ ان پر کوئی آزمایش آجائے یا ان کو کوئی دردناک عذاب آپہنچے۔ ‘‘ اسی طرح قرآن کریم نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو فرائضِ منصبی بیان فرمائے ہیں، ان میں تلاوتِ آیات کے ساتھ ساتھ تعلیمِ کتاب و حکمت کا بھی ذکر ہے۔ [1] ظاہر بات ہے کہ یہ تعلیمِ کتاب و حکمت، تلاوتِ آیات سے یکسر مختلف چیز ہے۔ اگر آپ کا مقصدِ بعثت تلاوتِ آیات ہی ہوتا، اس کی تعلیم و تشریح آپ کی ذمے داری نہ ہوتی تو قرآن تعلیمِ کتاب و حکمت کے الگ عنوان سے اس کا ذکر کبھی نہ کرتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ تعلیمِ کتاب و حکمت بھی آپ کا منصب ہے اور اس سے مراد آپ کی وہی تشریح و تبیین ہے جس کی وضاحت گذشتہ صفحات میں کی گئی ہے۔ بہر حال قرآنِ کریم کی بیان کردہ تفصیلات سے واضح ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت (نعوذ باﷲ) صرف ایک قاصد اور ’’چٹھی رساں ‘‘ کی نہیں ہے، بلکہ آپ کی حیثیت ایک مطاع و متبوع، قرآن کے معلم و مبیِّن اور حاکم و حَکَم کی ہے۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو فرامین صحیح سند سے ثابت ہیں، وہ دین میں حجت اور اسی طرح واجب الاطاعت ہیں، جس طرح قرآنی احکام پر عمل کرنا اہلِ ایمان کے لیے ضروری اور فرض و واجب ہے۔ صحابۂ کرام کا عمل اور رویہ یہی وجہ ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے قرآنِ کریم اور احادیثِ رسول میں کوئی فرق نہیں کیا اور دونوں کو نہ صرف یکساں واجب الاطاعت جانا، بلکہ احادیث کو قرآن ہی کا حصہ گردانا، چنانچہ صحیح بخاری میں سیدنا عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا واقعہ مذکور ہے۔ انھوں نے ایک موقعے پر فرمایا: ( لَعَنَ اللّٰہُ الْوَاشِمَاتِ وَالْمُوْتَشِمَاتِ وَالْمُتَنَمِّصَاتِ وَالْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ الْمُغَیِّرَاتِ خَلْقَ اللّٰہِ )[2]
[1] دیکھیں: الجمعۃ :آیت: ۲، البقرۃ :آیت: ۱۵۱ [2] صحیح البخاري، کتاب التفسیر، رقم الحدیث :۴۸۸۶