کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 224
اسی طرح حدیثِ رسول سے محرمات میں پالتو گدھے کا اضافہ کیا گیا، بلکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نہی (ممانعت) کو اﷲ کا حکم قرار دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’ إِنَّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ یَنْھَیَانِکُمْ عَنْ لُحُوْمِ الْحُمُرِ الْأَھْلِیَّۃِ ’[1] ’’اﷲ اور اس کا رسول تمھیں پالتو گدھے کے گوشت سے منع کرتے ہیں۔ ‘‘ 5۔ اسی طرح قرآن صرف رضاعی ماں اور رضاعی بہن کی حرمت بیان کرتا ہے۔ رضاعی بیٹی کی حرمت کا اضافہ حدیثِ رسول ہی سے کیا گیا ہے۔ 6۔ قرآن صرف دو بہنوں کو جمع کرنے سے منع کرتا ہے۔ خالہ اور بھانجی، پھوپھی اور بھتیجی کے جمع کرنے کی ممانعت قرآن کریم میں نہیں ہے، بلکہ ﴿وَ اُحِلَّ لَکُمْ مَّا وَرَآئَ ذٰلِکُمْ﴾ کے عموم سے ان کے جمع کرنے کی اِباحت نکلتی ہے، لیکن حدیثِ رسول ہی نے اس عموم میں یہ تخصیص کی کہ ﴿مَا وَرَآئَ ذٰلِکُمْ﴾ کے حکمِ عموم میں خالہ بھانجی اور پھوپھی بھتیجی کو جمع کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ 7۔ بالکل اسی طرح سورۃ النور کی آیت کا معاملہ ہے: ﴿اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ﴾(النور: 2) ’’جو زنا کرنے والی عورت ہے اور جو زنا کرنے والا مرد ہے، سو دونوں میں سے ہر ایک کو سو سو کوڑے مارو۔ ‘‘ اس میں زانی مرد اور زانی عورت کی جو سزا (سو کوڑے) بیان کی گئی ہے، یہ عام ہے، جس سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ زانی شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ، ہر قسم کے زانی کے لیے سو کوڑوں کی سزا ہے، لیکن اس آیت کے عموم میں بھی حدیثِ رسول نے تخصیص کر دی اور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے طرزِ عمل سے بھی اس کی وضاحت فرما دی کہ سورۃ النور میں جو زنا کی سزا بیان کی گئی ہے، وہ صرف غیر شادی شدہ زانیوں کی ہے۔ اگر زنا کار مرد یا عورت شادی شدہ ہوں گے تو ان کی سزا سو کوڑے نہیں ہوگی، بلکہ رجم (سنگ ساری) ہے۔ اسی طرح اور متعدد مقامات ہیں، جہاں قرآن کے عموم کو حدیثِ رسول سے خاص اور مقید کیا گیا ہے اور جس کو آج تک سب بالاتفاق مانتے آئے ہیں اور آج بھی مولانا اصلاحی و غامدی (اور ان سے متاثر چند افراد) کے سوا، اہلِ سنت کے تمام مکاتبِ فکر اس کو مانتے ہیں۔
[1] صحیح البخاري، کتاب المغازي، رقم الحدیث :۴۱۹۹