کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 223
تفصیل اہلِ علم جانتے ہیں۔ علاوہ ازیں ’’تدبرِ قرآن ‘‘ میں بھی چھے سات شرطیں بیان کی گئی ہیں۔
2۔ قرآن کریم میں ہے:
﴿حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ﴾ (المائدۃ: 3)
’’مردار اور خون تمھارے لیے حرام ہیں۔ ‘‘
لیکن اس عموم میں حدیثِ رسول نے تخصیص کی اور مچھلی اور ٹِڈّی (دو مردار) اور جگر اور تلی (دو خون) حلال قرار دیے:
’ أُحِلَّتْ لَنَا مَیْتَتَانِ وَدَمَانِ: اَلْجَرَادُ وَالْحُوْتُ، وَالْکَبِدُ وَالطِّحَالُ ’[1]
حالاں کہ عمومِ آیت کی رُو سے یہ چیزیں حرام قرار پاتی ہیں۔
3۔ ﴿قُلْ لَّآ اَجِدُ فِيْ مَآ اُوْحِيَ اِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلٰي طَاعِمٍ يَّطْعَمُهٗٓ اِلَّآ اَنْ يَّكُوْنَ مَيْتَةً اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْ لَحْمَ خِنْزِيْرٍ فَاِنَّهٗ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهٖ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَاِنَّ رَبَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ﴾(الانعام: 145)
’’کہہ دیجیے! میں اس وحی میں، جو میری طرف کی گئی ہے، کسی کھانے والے پر کوئی چیز حرام نہیں پاتا، جسے وہ کھائے، سوائے اس کے کہ وہ مردار ہو یا بہایا ہوا خون ہو یا خنزیر کا گوشت ہو کہ بے شک وہ گندگی ہے یا نافرمانی (کا باعث) ہو، جس پر غیر اﷲ کا نام پکارا گیا ہو، پھر جو مجبور کر دیا جائے، اس حال میں کہ نہ بغاوت کرنے والا ہو اور نہ حد سے گزرنے والا تو بے شک تیرا رب بے حد بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔ ‘‘
اس آیت میں کلمۂ حصر کے ساتھ چار محرمات کی تفصیل ہے (مردار جانور، بہتا ہوا خون، سور کا گوشت اور وہ چیز جس پر اﷲ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو) جس کا اقتضا یہ ہے کہ ان چار محرمات کے علاوہ دیگر چیزیں حلال ہوں۔ لیکن اس عموم میں بھی حدیثِ رسول سے تخصیص کی گئی اور ہر ذِی نَاب (کچلی والا درندہ) اور ذِیْ مِخلب (پنجے سے شکار کرنے والا پرندہ) بھی حرام کر دیا گیا۔ [2]
[1] بلوغ المرام، کتاب الطھارۃ، رقم الحدیث (۱۱) اس حدیث کا سنداً موقوف ہونا صحیح ہے، لیکن حکماً مرفوع ہے، کیوںکہ صحابی کا کہنا ہے: ’أُحلت لنا‘ یہ ’أُمِرْنَا‘ اور ’نُھینا‘کی طرح حکماً مرفوع ہے۔ (شرح بلوغ المرام از مولانا صفی الرحمن مبارک پوری)
[2] صحیح مسلم، رقم الحدیث:۱۹۳۴