کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 222
چناں چہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس منصب کے مطابق توضیح و تشریح کی اور اس کے اجمالات کی تفصیل بیان فرمائی، جیسے: نماز کی تعداد اور رکعات، اس کے اوقات اور نماز کی وضع و ہیئت۔ زکات کا نصاب، اس کی شرح، اس کو ادا کرنے کا وقت اور دیگر تفصیلات۔ قرآن کریم کے بیان کردہ اجمالات کی یہ تفسیر و توضیحِ نبوی اُمتِ مسلمہ میں حجت سمجھی گئی اور قرآنِ کریم کی طرح اسے واجب الاطاعت تسلیم کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ نماز اور زکات کی یہ شکلیں اور تفصیلات عہدِ نبوی سے آج تک مسلّم و متواتر چلی آرہی ہیں، ان میں کسی نے اختلاف نہیں کیا۔ 2۔ قرآنِ کریم کے اجمال کی تفصیل و تفسیر جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب ہے، بالکل اسی طرح عموماتِ قرآنی کی تخصیص اور اطلاقات (مطلق) کی تقیید بھی تبیینِ قرآنی کا ایک حصہ ہے اور قرآن کے عموم و اطلاق کی تخصیص و تقیید بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصبی فریضہ ہے اور اس کے تحت آپ نے یہ کام بھی کیا ہے اور اسے بھی اُمتِ مسلمہ نے متفقہ طور پر قبول کیا ہے۔ اسے زائد علی القرآن (قرآن میں اضافہ یا تغیر و تبدل) کہہ کر رد نہیں کیا جا سکتا، جیسا کہ آج کل فراہی گروہ سمیت بعض حضرات ان کو ردّ کرنے کی شوخ چشمانہ جسارت کر رہے ہیں۔ احکامِ قرآنی کے عموم کی تخصیص کی چند مثالیں: ہم تفصیل میں جائے بغیر چند مثالیں ایسے عمومِ قرآنی کی پیش کرتے ہیں جن میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے تخصیص کی گئی ہے۔ 1۔ ﴿وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْٓا اَيْدِيَهُمَا جَزَاۗءًۢ ﴾(المائدۃ: 38) ’’چور (مرد ہو یا عورت) ان کے ہاتھ کاٹ دو۔ ‘‘ اس میں چور کا لفظ عام ہے، معمولی چیز چرانے والا چور ہو یا قیمتی چیز چرانے والا۔ لیکن اس عموم سے حدیثِ رسول نے اس چور کو خارج کر دیا، جس نے ربع دینار (4/1) سے کم قیمت کی چوری کی ہو۔ [1] یعنی چور ﴿السَّارِقُ﴾ کے عموم میں تخصیص کر دی کہ اس سے وہ خاص چور مراد ہے، جس نے ایک خاص قدر و قیمت کی چیز چرائی ہو نہ کہ ہر قسم کے چور کے ہاتھ کاٹ دیے جائیں گے، جیسا کہ آیت کے عموم کا اقتضا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ اور تخصیصات بھی احادیث سے ثابت ہیں۔ نیز بعض فقہا کی عائد کردہ شرائط سے بھی۔ (جس کی
[1] سنن النسائي، رقم الحدیث:۴۹۳۲