کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 218
بھی بہ بانگِ دہل کہہ رہے ہیں۔ نام قرآن کی عظمت کا ہے، لیکن قرآن کے حکم:﴿مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ﴾ (النساء: 80) کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ ان کا رویہ ’’کلمۃ حق أرید بھا الباطل ‘‘ کا مصداق اور آئینہ دار ہے۔ ایسے لوگوں نے ایک حدیث بھی گھڑ رکھی ہے: ’’میری بات کو قرآن پر پیش کرو، جو اس کے موافق ہو، قبول کر لو اور جو اس کے مخالف ہو، اسے ردّ کر دو۔ ‘‘ امام شوکانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’یحییٰ بن معین نے کہا: (إنہ موضوع وضعتہ الزنادقۃ)[1] (یہ روایت موضوع ہے، جسے زنادقہ نے گھڑا ہے)۔ فراہی یا غامدی گروہ کا ’’اسلام ‘‘: اب اس گروہ نے اپنا چولا بدل لیا ہے، علم و فضل کا مدّعی ہے، دینی ادارے کھول لیے ہیں، قرآن کے مفسر ہیں اور بزعمِ خویش دینِ اسلام کے سمجھنے کا ایسا ادعا ہے کہ چودہ سو سال تک کسی نے ایسا نہیں سمجھا، جیسا انھوں نے قرآن کی روشنی میں سمجھا ہے۔ چناں چہ حدیث کو کنڈم کر کے یہ گروہ دینِ اسلام کا نیا ایڈیشن تیار کر رہا ہے، جس میں: ٭ تصویر سازی بھی جائز ہے۔ ٭ رقص و سرود بھی جائز ہے۔ ٭ مغنیات (گلو کاراؤں) کا وجود بھی ضروری ہے۔ ٭ عورت بھی مردوں کی امامت کرا سکتی ہے۔ ٭ مرد اور عورت ایک ساتھ مل کر نماز پڑھ سکتے ہیں۔ ٭ عورت کے لیے چہرے کی حد تک عریانی جائز ہے۔ ٭ زنا کی حد کے اثبات کے لیے چار عینی گواہ ضروری نہیں، قرائن سے بھی حد کا اثبات جائز ہے۔ ٭ علاوہ ازیں گواہوں کا مسلمان ہونا بھی ضروری نہیں، غیر مسلم کی گواہی بھی جائز ہے۔ ٭ عورت کی گواہی بھی مرد کی گواہی کے برابر ہے۔
[1] إرشاد الفحول ص: ۳۳