کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 217
ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ائمۂ سلف اور محدثین نے سنت اور حدیث کے مفہوم کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ہے، وہ سنت اور حدیث دونوں کو مترادف اور ہم معنی سمجھتے ہیں۔ اسی طرح سنت سے صرف عادات و اطوار مراد لے کر ان کی شرعی حجیت سے انکار بھی غلط ہے اور انکارِ حدیث کا ایک چور دروازہ۔ یا صرف اعمالِ مستمرہ کو قابلِ عمل کہنا یا دین کو صرف دینِ ابراہیمی کی موہومہ یا مزعومہ روایت تک محدود کر دینا، احادیث کے ایک بہت بڑے ذخیرے کا انکار ہے اور منکرینِ حدیث کی بہ اندازِ دگر ہمنوائی۔ اُمتِ مسلمہ میں حدیث کی تشریعی حیثیت مسلّم ہے: بہرحال حدیث اور سنت، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال اور تقریرات کو کہا جاتا ہے اور یہ بھی قرآن کریم کی طرح دین کا ماخذ، شریعت کا مصدر اور مستقل بالذات قابلِ استناد ہے۔ چناں چہ امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (اعلم أنہ قد اتفق من یعتد بہ من أھل العلم علیٰ أن السنۃ المطھرۃ مستقلّۃ بتشریع الأحکام وأنھا کالقرآن في تحلیل الحلال وتحریم الحرام )[1] ’’معلوم ہونا چاہیے کہ اہلِ علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سنتِ مطہرہ تشریعِ احکام میں مستقل حیثیت کی حامل ہے اور کسی چیز کو حلال قرار دینے یا حرام کرنے میں اس کا درجہ قرآن کریم ہی کی طرح ہے۔ ‘‘ پھر آگے چل کر لکھتے ہیں: (إن ثبوت حجیۃ السنۃ المطھرۃ واستقلالھا بتشریع الأحکام ضرورۃ دینیۃ، ولا یخالف في ذلک إلا من لا حظّ لہ في دین الإسلام)[2] ’’سنتِ مطہرہ کی حجیت کا ثبوت اور تشریعِ احکام میں اس کی مستقل حیثیت ایک اہم دینی ضرورت ہے اور اس کا مخالف وہی شخص ہے، جس کا دینِ اسلام میں کوئی حصہ نہیں۔ ‘‘ سنت کا مستقل حجتِ شرعی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث سے جو حکم ثابت ہو، وہ مسلمان کے لیے قابلِ اطاعت ہے، چاہے اس کی صراحت قرآن میں ہو یا نہ ہو۔ آپ کے صرف وہی فرمودات قابلِ اطاعت نہیں ہوں گے، جن کی صراحت قرآن کریم میں آگئی ہے، جیسا کہ گمراہ فرقوں نے پہلے بھی کہا ہے اور اب
[1] إرشاد الفحول ص: ۳۳ [2] إرشاد الفحول ص: ۳۳