کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 216
کے لیے عام ہے اور اس میں اتنا خصوص پیدا ہوگیا ہے کہ جب بھی حدیث یا سنت کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے مراد نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال اور تقریرات ہی مراد ہوتے ہیں، اس مفہوم کے علاوہ کسی اور طرف ذہن منتقل ہی نہیں ہوتا۔ ائمۂ سلف اور محدثین کرام رحمہم اللہ کے نزدیک بالاتفاق حدیث اور سنت مترادف الفاظ ہیں، ان کے درمیان کسی نے معنی اور منطوق کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں کیا ہے۔ حدیثِ رسول سے انحراف کا آغاز: اس دور کے جن لوگوں نے حدیثِ رسول کی تشریعی حیثیت کو دل سے تسلیم نہیں کیا اور وہ اس کے ماخذِ شریعت ہونے کو مشکوک ٹھہرانے کی مذموم سعی کر رہے ہیں، انھوں نے حدیث اور سنت کے مفہوم میں فرق کیا ہے، اس لیے کہ اس کے بغیر ان کے لیے حدیثِ رسول سے واضح الفاظ میں انکار کرنا ممکن نہیں۔ وہ چاہتے ہیں یا اپنے زعمِ باطل میں مسلمان عوام کو اس مغالطے میں مبتلا رکھنا چاہتے ہیں کہ وہ منکرِ حدیث نہیں ہیں، دراں حالیکہ ان کی ساری کاوشوں کا محور و مرکز حدیثِ رسول اور اطاعتِ رسول کا انکار ہے۔ ان کے خیال میں سنت سے مراد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال و عادات ہیں اور حدیث سے مراد اقوالِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔ بعض لوگوں نے اس سے بھی تجاوز کر کے یہ کہا کہ آپ کے اعمال و عادات عرب کے ماحول کی پیداوار تھیں، اس لیے ان کا اتباع ضروری نہیں، صرف آپ کے اقوال قابلِ اتباع ہیں۔ ایک تیسرے گروہ نے اس کے برعکس یہ کہا کہ آپ کے اقوال پر عمل ضروری نہیں، جسے وہ حدیث سے تعبیر کرتے ہیں، تاہم آپ کے اعمالِ مستمرہ (دائمی اعمال) قابلِ عمل ہیں، اسے وہ سنت کہتے ہیں۔ اور ایک چوتھا گروہ ہے، اس نے کہا: سنت دینِ ابراہیمی کی وہ روایت ہے، جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تجدید و اصلاح کے بعد اور اس میں بعض اضافوں کے ساتھ دین کی حیثیت سے جاری فرمایا۔ گویا سنت و حدیث ان مذہبی مسخروں اور بہروپیوں کے نزدیک کوئی دینی اصطلاح نہیں ہے، بلکہ بازیچۂ اطفال ہے یا موم کی ناک ہے، جسے جس طرح چاہو استعمال کر لو اور جس طرف چاہو موڑ لو۔ لیکن یہ سب باتیں صحیح نہیں۔ یہ چاروں گروہ دراصل بہ لطائف الحیل احادیث سے جان چھڑانا چاہتے